Maktaba Wahhabi

132 - 222
(۵)اگر یہ مان لیں کہ وہ عورت کھلے چہرے کے ساتھ تھی،تو یہ احتمال ہے کہ اسے حجاب کے حکم کا علم نہ ہو،(اگر ایسا نہ بھی ہو )توکیا ایک اعرابی عورت کی غلطی کی بناء پر کتاب اللہ ،سنت رسول اللہ اور مسلمانوں کے عمل کو چھوڑنا روا ہوسکتاہے؟ جبکہ ہمیں پختہ علم بھی نہیں کہ وہ بے پردہ تھی بھی یانہیں۔ اسی قسم کی ایک غلطی قیلہ العنبریہ رضی اللہ عنہا سے سرزد ہوئی تھی،جو مردوں کی صفوں میں کھڑی ہوکر نماز پڑھنے لگ گئی تھیں۔ یہاں یہ نہ کہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خثعمی عورت کے کھلے چہرے پر اسے ٹوکا نہیں تھا،بلکہ اس کے اس عمل کو برقرار رکھا تھا؟کیا اس بات کو ایک ایسے قطعی ثبوت کے ساتھ ثابت کیا جاسکتا ہے،جو کسی احتمال کو باقی نہ چھوڑے اور نہ ہی کسی تردد کی کوئی گنجائش بچے؟ پھر اس کے ساتھ ساتھ ایک تکلف اوربھی کرناپڑے گا،اور وہ یہ کہ اتنی بڑی تعداد میں موجود ان تمام نصوص کی تاویل کرنی پڑے گی جو عورت کیلئے چہرے کا ڈھانپنا واجب قرار دیتے ہیں،توگویا یہ مسئلہ آسان نہیں ہے۔ اس کی بجائے یہ بات زیادہ بہتر اور وزنی محسوس ہوتی ہے کہ اگر اس خاتون کا چہرہ واقعی کھلا ہوا تھا تویہ کسی قرینے کی وجہ سے، اس کیلئے مخصوص ہوگا،(کچھ قرائن سابقہ سطورمیں بیان ہوچکے ہیں)یاپھریہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے جو کچھ دیکھنا رواہے وہ کسی اور کیلئے نہیں ہے۔(یہ بات زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ یہ کہاجائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے چہرے کی بے پردگی برقرار رکھی۔) روایات سے یہ بات پایۂ ثبوت کوپہنچ چکی ہے کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کے علاوہ اس عورت کوکسی نے نہیں دیکھا تھا،اور فضل کے چہرے کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری طرف پھیر دیاتھا،گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو برقرار نہیں رکھا تھا،اور یہ قاعدہ معلوم اور مقرر ہے کہ کسی چیز کا نقل نہ ہونا،اس کے معدوم ہونے کی نقل نہیں ہوتا(کہا
Flag Counter