جاتا ہے کہ عدمِ بیان،عدمِ شیٔ کومستلزم نہیں۔)لہذا اگر اس کا چہرہ کھلاتھا تو ممکن ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں تنبیہ فرمائی ہواور اس عمل کا انکارکیاہو۔ المہم!کسی صحابی خاتون کا اپنا چہرہ کھلا رکھنا،ناقابلِ تصورہے؛کیونکہ یہ فعل، ترکِ واجب کے زمرے میں آتا ہے ،یاپھر کم ازکم ترکِ افضل کے زمرے میں۔ اس امت کی پہلی جماعت(صحابہ کرام)کے حوالے سے یہ حقیقت بخوبی معلوم ہے کہ وہ ہر قسم کی خیر کے کام کو اپنانے کے سب سے بڑے حریص تھے۔ پھر جن لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے،انہیں کیاہوگیا کہ انہوں نے، نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے فضل بن عباس کے چہرے کو پھیرنے والے معاملے سے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں، اور نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو سننے سے اپنے کان بھی بند کئے ہوئے ہیں: میں ان دونوں (یعنی فضل اورخثعمی عورت)کے تعلق سے شیطان سے بے خوف نہیں۔ یہ بات دورِ صحابہ کی ہے جو علی الاطلاق سب سے بہترین دور تھا،کیا یہ لوگ اُس دور کے مشہود لہ بالخیر ہونے سے ناواقف ہیں؟یا جان بوجھ کر ناآشنا ہیں ؟ اورآج کادور کیا ہے؟: مردوزن سے بھرے بازار ،بدترین اختلاط کے مظاہرے دینی حالت انتہائی پست اورکمزور خواہشات نفس کاغلبہ آنکھیں کھول کر اور دیکھ بھال کر بازار میں چلنا ……(الامان والحفیظ) بقول شاعر: یقولون لاتنظر وتلک بلیۃ ألا کل ذی عینین لابد ناظر |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |