ہوتی ہے،مگر ان اقوال کو مذہب بناکر یہ علماء ایک دوسرے سے نقل کرنا شروع کردیتے ہیں اور ایسے ایسے لوازم،اختراع کرلیتے ہیں جوان ائمہ نے کہے ہی نہیں ہوتے۔… مزید فرماتے ہیں:وہ قول ان کے امام نے کہاہی نہیں ہوتا،بلکہ بعض اوقات امام کی بات،ان کی بات کے خلاف نکلتی ہے ۔ بہت سے علماء،جنہیں تحقیق کا ذوق حاصل ہے،نے ذکر کیا ہے :ائمہ اربعہ کی طرف جو،عورت کا اجنبی مردوں کے سامنے اپنا چہرہ اورہاتھ کھولنے کے جواز کا قول منسوب ہے،غلط ہے ۔ انہوں نے تو یہ کہا ہے:جہاں چہرہ ڈھانپنے کی دلیل نہ ہو وہاں عورت کیلئے اپنا چہرہ کھول لینا مباح ہے ،لہذا اس معنی میں اس کا چہرہ پردہ نہیں ہے ،اس سے مراد یہ ہے کہ عورت نماز میں جبکہ اسے کوئی اجنبی نہ دیکھ رہا ہواپنا چہرہ کھلارکھے گی،گویا بایں صورت چہرہ کا پردہ ہونا (یانہ ہونا )نماز کے ساتھ منسلک ہے،لیکن کسی بھی اجنبی کی موجودگی میں اس کاچہرہ پردہ ہی ہے۔[1] جوشخص علماء کے اقوال کا تتبع کرے گا،اس پر واضح ہوگا کہ اہلِ علم نے کسی خاتون کے پردہ کے حوالے سے یہ باتیں نماز کی شرائط کے ضمن میں ذکر کی ہیں،جبکہ (عمومی حالات کے تعلق سے )امام مالک اور امام احمدبن حنبل رحمھمااللہ کا قول گذرچکا ہے، وہ عورت کی ہر چیز کو پردہ قرار دیتے ہیں،حتی کہ اس کے ناخن بھی۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:عورت شرم وحیاء کے تمام تقاضے پوراکرنے اور ان تمام چیزوں کو پردے میں کرنے کا حکم دی گئی ہے،جومردوں کی خواہشات وشہوات کوبرانگیختہ کرتی ہیں۔[2] |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |