سب سے بڑھ کریہ کہ اس کتاب کے ظہورپذیر ہونے کا وقت انتہائی نامناسب ہے، یہ وہ دورہے کہ اسلام کے دشمن اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ہمارے پردے پر ٹوٹ پڑے ہیں،ان مفسدین، کہ اہلِ ایمان میں فواحش ومنکرات کا پھیلانا جن کا پسندیدہ مشغلہ ہے ،نے اس کتاب کا خوب استقبال کیا اورشیخ رحمہ اللہ کا خوب شکریہ ادا کیا اور جس وادی میں وہ ایک طویل عرصہ سے ٹامکٹوئیاں ماررہے تھے ،اس کتاب کو ایک فوری اورکامیاب ہدف قرار دے دیا۔(یہی ایک نکتہ چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے قول کے بطلان کیلئے کافی ہے) شیخ رحمہ اللہ کی اس تمام تر جدوجہد پر یہ شعر پوری طرح صادق آرہا ہے: رام نفعا فضر من غیر قصد ومن البر مایکون عقوقا یعنی:اس نے فائدہ پہنچانے کا ارادہ کیا،مگر بلاقصد وارادہ وہ نقصان پہنچاگیا، کچھ نیکیاںبعض اوقات نافرمانی قرار پاجاتی ہیں۔[1] عبداللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے:دلیل پکڑتے وقت رجال کا نام لینا چھوڑ دو، بعض اوقات ایک شخص کی بڑی مناقب ہوتی ہیں، لیکن عین ممکن ہے کہ اس سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے،اب اس غلطی سے کسی کا استدلال کرنا ممکن ہے؟[2] |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |