Maktaba Wahhabi

170 - 222
کیونکہ عورت کی طرف نگاہ اٹھانے کی حرمت،کسی بھی ناجائز چیز(مثلاًزنا وغیرہ)کے وسائل کی حرمت کے باب سے ہے،لہذا اس کا اپنے چہرے کو کھولنا اور مرد کا دیکھنا کسی راجح مصلحت کی بناء پر ہی جائز ہوسکتاہے،بلکہ مذکورہ آیت کریمہ[يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ] اوراحادیثِ مبارکہ تو دیگر احادیث کے ساتھ ملکر،عورت کیلئے چہرہ کھلارکھنے کی قطعی حرمت پردال ہیں،یہ مقام کسی تفصیلی بحث کا متحمل نہیں ہے، البتہ اختصار سے عرض ہے کہ جریر رضی اللہ عنہ جن کا اسلام بہت متأخر ہے،دس ہجری میں مسلمان ہوئے تھے،کی حدیث تو عورت کیلئے اپنا چہرہ ڈھانپے رکھنے کے وجوب پر نص کی حیثیت رکھتی ہے؛کیونکہ اگر اجنبی عورت کے چہرے کو دیکھنا جائز ہوتا تو اچانک نظر کی بابت سوال کا کوئی معنی نہ ہوتا،اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچانک نظر پڑنے کے بعد اسے پھیرنے کا حکم دیتے۔ ان واضح نصوص کی واضح دلالت کے تعلق سے لوگوں کی عقلیں کہاں کھوگئیں؟ چہرے کی بے پردگی کے قائلین کا حجاب سے متعلق نصوصِ شرعیہ کے ساتھ رویہ اور تعامل انتہائی تعجب خیز ہے،چنانچہ جن نصوص کا حق،اطلاق کاتھا،انہیں مقید کردیا اور جو نصوص عموم کے مستحق تھے انہیں خاص کردیا اور جن نصوص میں شرعی حد میں رہتے ہوئے توقف کی ضرورت تھی وہاں خوب توسع سے کام لیا،اس قسم کے اور بہت سے (انحرافات) ہیںجو شریعت مخالف رائے کا یقینی نتیجہ ہوتے ہیں،شاعر نے کیاخوب کہا ہے: دعھا سماویۃ تمشی علی قدر لاتفسدنھا برأی منک منکوس یعنی:اسے آسمانی امر قرار دیتے ہوئے چھوڑ دوکہ وہ اپنی مقررہ حد پر چلتی رہے اور اسے اپنی الٹی سمجھ سے پراگندہ نہ کرو۔
Flag Counter