مجھے اس شبہ کی اطلاع کتاب (جلباب المرأۃ)سے ہوئی،جس میں یہ شبہ مذکور ہے اور اس کی بنیاد پر اپنے مخالفین پر حملہ آورہونابھی۔ جب میں نے شیخ کی کتاب میں یہ شبہ پڑھا تو میں نے تمنا کی کہ کاش شیخ خود ہی اس شبہ کا رد فرماکر اپنے آپ کو بچالیں،مگرافسوس مذکورہ کتاب میں یہ شبہ پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور دل دہل اٹھا،قریب تھا کہ اس کی گرانی سے میری پسلیاں ٹوٹ جاتیں (سبحان اللہ ) ماھکذا یاسعد تورد الابل (اے سعد !اس طرح اونٹوں کو پانی پر وارد نہیں کیاجاتا) اس شبہ کی بنیاد ظن اورتخمین پر ہے اور فقہ کے بازار میں نیز علمی مناظرات میں ظن اور تخمین کا معاملہ بالکل نہیں چلتا،جن خدمات کا آپ تذکرہ کرنا چاہتے ہیں،تاریخ کے صفحات میں کہاںلکھاہواہے کہ وہ خواتین چہرہ کھلارکھتی تھیں ،اس کے ساتھ ساتھ کہاں لکھاہوا ہے کہ ان کا چہرہ کھلارکھنا نزولِ حجاب کے بعد تھا۔ [اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍؚبِہٰذَا۰ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي االلّٰه مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۶۸ ](یونس:۶۸) اس شبہ کو چھیڑنے والے حضرات کے پاس اٹکل پچوکے علاوہ کچھ نہیں،پھر کیا رکاوٹ ہے کہ یہ بھی کہہ دیا جائے کہ وہ عورتیں متبرجات تھیں ؛کیونکہ معاملہ رائے اور تصور پر ہی قائم ہے ۔ علماء کرام نے دین میں رائے کی سخت مذمت کی ہے،بخوبی سمجھ لو۔ اگرایک عورت سے عرصۂ درازتک باربار حدیث کاسماع اور علم کاتحمل،مکمل حجاب کے ساتھ ممکن ہے،حالانکہ یہ معاملہ بہت ہی مشکل ہے ،تو اس سے چھوٹے کام کیا مکمل حجاب کے تحفظ کے ساتھ ممکن نہیں؟ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |