Maktaba Wahhabi

188 - 222
اظہار کیاکرتے تھے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا رائے،قیاس یا استحسان کے ساتھ معارضہ کیا کرتے تھے،یا کسی شخصیت خواہ وہ کوئی بھی ہو کے قول کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم کیا کرتے تھے۔ ان کاعمل تو پوری طرح اس فرمانِ الٰہی کے ساتھ قائم تھا : [وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى االلّٰه وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ ] یعنی: کسی مؤمن مرد اور عورت کو یہ لائق نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سن لینے کے بعد اپنا حکم اور اختیار پیش کرے۔( الاحزاب:۳۶) نیز اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ساتھ بھی: [فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا۝۶۵ ]( النساء:۶۵) یعنی:پس قسم ہے تیرے رب کی!یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو حَکم نہ مان لیں،پھر اپنے دلوں میں آپ کے فیصلے سے کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پوری طرح تسلیم کرلیں۔[1] اب ہم ان اعتراضات کا ذکرکرتے ہیں،جن کابطلان ہماری مذکورہ تقریر سے پہلے ہی ہوچکا ہے۔ - مشقت خودبخود آسانی پیداکرلیتی ہے۔ - دین آسان ہے ۔ - حجاب کی سختی،اسلام کوتشدد جیسے الزام کا سامنا کرنے کی باعث ہے، اور وہ معاشرے جن میں اخلاقی پستی اور بے پردگی کا رواج ہے ،باپردہ عورت کو ایک الگ تھلگ،ترقی کی رفتار سے کٹی ہو ئی عورت قرار دیتے ہیں۔
Flag Counter