Maktaba Wahhabi

84 - 222
جواب:اس شبہ کا جواب کئی وجوہ سے ممکن ہے: (۱) یہ خیال ظاہر کرنے والوں کے پاس،استحباب ومشروعیت کی کیا دلیل ہے؟ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے ڈھانپنے کااصل سنت میں ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں یہ پردہ ایک رواج کے طور پہ تھا اورامہات المؤمنین فریضہ کی حدتک پردہ کیاکرتی تھیں،جسے بعدکی عورتوں نے بھی اختیارکیے رکھا۔ ان لوگوں سے کہا جائے گا:کوئی سمجھ بوجھ کی بات کرو،تمہارا یہ طرزِ استدلال کس قدر ناقص ہے،بہت سے فقہی مسائل ایسے ہیں جن کا وجوب،ان سے ہلکے دلائل سے ثابت ہوتا ہے ،جن لوگوں نے پردے کے ہمارے ذکر کردہ دلائل کو استحباب پر محمول کیا ہے ،وہ دیگر بہت سے مسائل کے وجوب کواگر ثابت کرناچاہیں توہمارے ان دلائل سے زیادہ واضح اورکھلی دلیل نہیں لاسکتے۔ (۲)ہمارے ذکر کردہ تمام دلائل،وجوب پر دلالت کرتے ہیں،انہیں دہرانے اور کتاب کی طوالت بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں،البتہ کچھ مزید دلائل ملاحظہ ہوں: عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بہن کی بابت سوال کیا،جس نے ننگے پاؤں اور ننگے سر حج کرنے کی نذر مانی ہوئی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مروھا فلتختمر ولترکب ولتصم ثلاثۃ أیام)[1] اسے حکم دو کہ وہ اپنے سر کوڈھانپے اور سواری پر سوارہواور تین روزے رکھے۔(اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مذکورہے جو وجوب کی دلیل ہے) ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے زمعہ کی لونڈی کے بیٹے والے قصہ میں بیان فرمایا ہے:سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اس بیٹے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
Flag Counter