Maktaba Wahhabi

183 - 338
میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو طعن و تشنیع کا ہدف و نشانہ بناتے ہیں حالانکہ ان کی براء ت اور طہارت و پاکدامنی کی گواہی نہ وہ خود دے رہی ہیں نہ ان کا کوئی قریبی عزیز بلکہ ان پر لگائے گئے بہتان کی تردید خود ربِ کائنات نے قرآنِ کریم میں فرمادی ہے اور صرف اسی پر بس نہیں کیا کہ انھیں اس اِفک و بہتان سے بَری قرار دے دیں بلکہ ساتھ ہی ان کے حسنِ کردار کی سند ’’طیبہ‘‘ بھی عطا فرمائی ہے۔ (دیکھیے آیاتِ سورۃ النور) لیکن پھر بھی کچھ لوگ اپنے خبثِ باطن کے اظہار کے لیے زبان درازی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بدزبانی کا دفاع کرتے ہوئے سلفِ امت نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تبرّا کرنے والے شخص کو قتل کردیا جائے چنانچہ عباسی خلیفہ المستعین باللہ کے زمانے [۲۵۰ھ] میں طبرستان کے علوی حاکم اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی نسل و خانوادے کے چشم و چراغ حسن بن زید (الأعلام للزرکلي: ۲/ ۱۹۱) کے پاس ایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بد زبانی کی تو وہ اس پر سخت ناراض ہوئے اور اپنے غلام کو حکم دے دیا: ’’یَا غُلَامُ! اِضْرِبْ عُنُقَہٗ۔‘‘ (اے غلام! اسے قتل کردو) علویوں [شیعوں ] نے کہا کہ یہ شخص تو ہماری ہی شیعہ جماعت کا فرد ہے، اس پر حسن بن زید نے کہا: ’’مَعَاذَ اللّٰہَ! ہَٰذَا الرَّجُلُ طَعَنَ عَلٰی النَّبِيِّ ﷺ۔‘‘ ’’معاذ اللہ! اس آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کیا ہے۔ ‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور میں ارشادِفرمایا ہے: {اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ
Flag Counter