Maktaba Wahhabi

53 - 338
اتار دے اور اگر یہی رویہ کسی حاکم کے ساتھ اختیار کیا جائے تو وہ سرتن سے جدا کردینے کے احکام جاری کردے مگر رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عالَم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو بھی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم، ابو داود، بیہقی اور مسند احمد میں حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ بالتفصیل درج ہے کہ یمامہ کے اس رئیس اور بنی حنیفہ کے اس سردار کو نجد کی طرف بھیجے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک گھڑ سوار فوجی دستے نے قید کرلیا اور مدینہ منورہ میں لاکر مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اس کا حال دریافت فرمایا: (( مَا عِنْدَکَ یَا ثَمَامَۃُ؟)) ’’ اے ثمامہ! تمھاری کیا خیر خبر ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’عِنْدِيْ خَیْرٌ یَا مُحَمَّدُ! اِنْ َتقْتُلْنِيْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَ اِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلٰی شَاکِرٍ۔‘‘ ’’میرے پاس تو سب خیر خبر ہے، اگر تم مجھے قتل کردوگے تو ایک خون والے کو قتل کروگے [جس کا بدلہ لیا جائے گا] اور اگر احسان کروگے تو ایک شکرگزار شخص پر احسان کروگے جو تمھارا احسان مند ثابت ہوگا۔‘‘ اگلے دن بھی یہی سوال و جواب ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑدو۔ اس عالی اخلاق اور حسنِ سلوک کا اس پر یہ اثر ہوا کہ وہ مسجدِ نبوی کے ایک قریبی نخلستان [کھجوروں کے باغ] میں گئے، غسل کیا، دوبارہ مسجدِ نبوی میں حاضر ہوئے اور کہا: ((أَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ)) ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter