Maktaba Wahhabi

61 - 338
{ وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ} [حم السجدۃ: ۳۴] ’’اور بھلائی اور بُرائی برابر نہیں ہوسکتی تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویاوہ تمھارا گرم جوش دوست ہے۔‘‘ ۴۔ رحمۃٌ لّلعالمین صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہیں جن کی نگاہ میں رومی و یونانی اور مصری و سوڈانی سب مساوی ہیں۔ جن کے دربار میں مِدْعَم سوڈانی، بلال حبشی، فیروز خراسانی، سلمان فارسی، صہیب رومی، اثامہ نجدی اور عدی طائی پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوئے ہیں، جہاں جندل کا بادشاہ اکیلا نہیں بلکہ عمان کا حکمران حبقران، آلِ حمیر کا مدعیٔ الوہیت ذو الکلاع اور یمن کا بڑا کاہن ضماد غلامانِ بارگاہ سے بہت پیچھے صفِ نعال میں خرم و شادماں موجود ہے۔[1] غرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاقِ عالیہ کے ذریعے جنگوں کے وہ اغراض و مقاصد اور اہداف ہی بدل کر رکھ دیے جن کے لیے جنگ کی آگ بھڑکائی جاتی تھی۔ پہلے جنگ سلب و نہب، قتل و غارت، ظلم و ستم، جبر و استبداد، انتقامی کارروائی، بدلہ لینے، ضعیفوں کو دبانے، آبادیوں کو ویران کرنے، مکانوں کو تباہ کرنے، عورتوں کی عزت لوٹنے، بوڑھوں بچوں پر ظلم ڈھانے، فصلوں کو تباہ کرنے، چوپایوں کو ہلاک کرنے اور زمین میں فساد و بگاڑ پیدا کرنے کے لیے لڑی جاتی تھیں۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار فرمودہ قواعد و ضوابط کے نتیجے میں جنگ
Flag Counter