Maktaba Wahhabi

123 - 253
کے بعد کہ وہ کچھ سنتے جانتے اور بولتے نہیں، نہ ہی وہ نفع و نقصان کے مالک ہیں، اپنے رب تعالیٰ کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ میرا رب تو وہ ذات ہے کہ: (وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿٨٠﴾) (سورۃ الشعراء: آیت 80) یعنی: ’’اور جب میں مریض پڑ جاؤں تو وہ مجھے شفاء نصیب کرتا ہے‘‘۔ مقصد یہ تھا کہ اے میری قوم! یہ تمہارے خدا تمہیں شفا دینے پر قادر نہیں پھر ان کی پوجا کیوں کرتے ہو؟ جب رب تعالیٰ ہی شفاء دیتا ہے تو پھر عبادت بھی اسی کی کرو، اپنے خداؤں کو چھوڑ دو، جو بے سود و بے فائدہ ہیں۔ آج بھی ایسے عقیدے والے لوگ نظر آتے ہیں جو جب کوئی مرض آ جائے تو کہتے ہیں کہ مرشد کی ناراضگی کی وجہ سے مرض آیا ہے، اسی طرح پھر شفاء کے لیے بھی انہیں غائبانہ پکارتے ہیں، ان کے نام کے کڑے چھلے، ان کے نام کی نذرونیاز کرتے ہیں، دھاگے باندھتے ہیں، شفاء کے لیے ان کے درباروں کی خاک جسم پر ملتے ہیں، کئی دفعہ آپ نے دیکھا ہو گا لوگ بسوں میں دم چھلے اور دھاگے فروخت کرتے ہیں، جو تقریباً تمام اہم بیماریوں کے لیے مجرب نسخہ ہوتے ہیں، جاہل عوام انہیں (ہائے عامۃ الناس کی سادہ لوحی بلکہ بدبختی کہ) اتنا ہی نہیں جانتے کہ پیر صاحب ایک عرصہ ہوا مر گئے، صدیاں بیت گئیں انہیں یہاں سے کوچ کیے مگر ان کا چھلا ابھی تک زندہ سینکڑوں بیماریوں کے لیے جادو کی چھڑی اور اس کا تبرک جاری و ساری ہے۔ وہ الہ دین کے چراغ کی طرح جس گھر میں ہو شفاء وہاں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ جس ہاتھ میں ہو بیماریاں وہاں سے بھاگ جاتی ہیں۔ جس دوکان میں داب دیا جائے، رزق اس دوکان والے پر عاشق ہو جاتا ہے، ہاں کسی کا بھلا ہو نہ ہو وہ تو چھلے بیچ کر اپنے چند ٹکے کھرے کرتا ہے۔ اس رام کہانی سے محسوس یوں ہوتا ہے کہ پیر صاحب جدی پشتی لوہار تھے، ضرورت زمانہ سے سید بن بیٹھے اور اپنے چھلے اور کڑے بیچنے کے لیے شیطان نے انہیں پٹی پڑھا دی۔ الغرض غیروں سے شفاء مانگنے کے یہ سب طریقے شرک ہیں اور اس شافی و کافی ذات باری تعالیٰ کی گستاخی اور بے ادبی ہے۔
Flag Counter