Maktaba Wahhabi

146 - 253
خاطر میں نہ لاتے ہوئے فرمایا: (رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴿٤﴾) (سورۃ الممتحنہ: آیت 4) یعنی: ’’اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی توکل کیا اور تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور تیری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے‘‘۔ لہٰذا سیرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ صاف گوئی اور بے باکی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں اور مادی سہارے چھن جائیں، لوگ مدد کرنے سے دستکش ہو جائیں مگر اللہ پر مکمل توکل، کامل یقین اور اکمل بھروسہ رکھا جائے، غیروں پر توکل کرنا اور ان کے سہارے کو قوی سمجھنا رب کے سہارے اور اس پر توکل میں کمزوری دکھانا شرک ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ بار بار ارشاد فرما رہے ہیں: (وَعَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴿١٢﴾) (سورۃ ابراہیم: آیت 12) یعنی: ’’اور توکل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کرنا چاہیے‘‘۔ دوسرے مقام پر فرمایا: (وَعَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ) (سورۃ آل عمران، آیت 160، سورۃ ابراہیم: آیت 11) یعنی: ’’اور مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر ہی توکل رکھنا چاہیے‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے کہ: (وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللّٰهِ وَكِيلًا ﴿٤٨﴾) (سورۃ الاحزاب: آیت 48) یعنی: ’’اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو وہ بگڑی بنانے کے لیے کافی ہے‘‘۔ یہ حکم اسی لیے دیا کہ: (وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ) (سورۃ الطلاق: آیت 3) یعنی: ’’اور جو اللہ تعالیٰ پر توکل کر لے تو وہ اسے کافی ہو جاتا ہے‘‘۔ اللہ کیسے کافی ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((عَنْ عُمَر رضي اللّٰه عنه قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم يَقُوْلُ لَوْ توكلْتُمْ
Flag Counter