Maktaba Wahhabi

177 - 253
سمجھتے ہوئے اس کے لئے دعاء مغفرت کرنے سے رک جانا ہی اصل استقامت ہے، جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لئے دعا کرنا ترک کر دیا تھا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ للّٰهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ) (سورۃ التوبہ: آیت 114) یعنی: ’’اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا مانگنا صرف اس وعدہ کی بناء پر تھا جو آپ (علیہ السلام) نے اس سے کیا تھا، جب آپ (علیہ السلام) کو واضح معلوم ہو گیا کہ وہ تو اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے‘‘۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو دین میں استقامت اختیار کرنے کا متصف ہرگز نہیں ٹھہرایا جا سکتا، جنہیں اسلام کا یہ حکم پیش کیا جائے کہ اپنے مشرک فوت شدگان کے لئے دعاء مغفرت نہ کرو تو وہ بپھر جائیں اور اسلام سے منحرف ہونے والی باتیں کریں اور انہیں یہ حکم شاق گزرے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے مشرک چچا ابوطالب کے لئے دعاء مغفرت کرنے سے روکتے ہوئے یہ حکم صادر فرمایا: (مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴿١١٣﴾)(سورۃ التوبہ: آیت 113) یعنی: ’’نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ایمان والوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لئے اگرچہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، ان کے جہنمی ثابت ہونے کے بعد دعاء مغفرت کریں‘‘۔ اور ساتھ ابراہیم علیہ السلام کا باپ کے لئے دعا سے دستبردار ہونے کا ذکر بھی فرما دیا تاکہ یہ مسئلہ سیرتِ ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے واضح ہو جائے۔ کوئی شک نہیں کہ کلیجہ منہ کو آ لگتا ہے کہ جب کسی مسلمان کا باپ، بھائی، بیٹا یا ماں جیسے قریبی رشتہ دار شرک پر مر جائیں اور ادھر ان کے لئے دعا کرنا ممنوع قرار دیا
Flag Counter