Maktaba Wahhabi

189 - 253
میں سے بھی ایک اُمت اپنی فرمانبردار بنائے رکھنا‘‘۔ 2۔ جب آپ علیہ السلام کو منصب امامت ملنے لگا تو بھی اولاد اور ان کی نسلوں کے لیے دعا فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ) (سورۃ البقرۃ: آیت 124) یعنی: ’’اور جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا تو فرمایا کہ میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میری اولاد میں سے بھی بنا دے‘‘۔ 3۔ اسی طرح اپنی اولاد کی نسل میں آخری نبی کے آنے کی دعا کرتے ہوئے فرمایا: (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩﴾) (سورۃ البقرۃ: آیت 129) یعنی: ’’اے ہمارے رب! ان میں ایک رسول بھیج جو کہ انہیں میں سے ہو، انہیں تیری آیات پڑھ پڑھ کر سنائے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے، ان کا تزکیہ فرمائے، بلاشبہ تو تو غالب حکمت والا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر خلیل علیہ السلام کی تمام دعاؤں کو قبول فرمایا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ان تمام جامع دعاؤں کا اہتمام اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی اولاد اور ان کی نسلوں تک کے لیے ان کے دیندار اور رب تعالیٰ کے فرمانبردار اور نیکوکار ہونے کی دعائیں کرتے رہیں۔ جبکہ اکثر لوگوں کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ جوں جوں بوڑھے ہوتے جاتے ہیں، دنیا کی حرص اور مال و دولت جمع کرنے کا لالچ بڑھتا جاتا ہے۔ جبکہ اولاد کے بارے میں فکر تک نہیں ہوتی کہ ہماری اولاد کی تمام نسلیں دین کی کاربند بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سی سوچ نصیب فرمائے کہ ہم اپنی اولادوں اور ان کی ذریت کے نیک ہونے کے فکر مند ہوں، ان کے لیے کوششوں اور دعاؤں
Flag Counter