Maktaba Wahhabi

192 - 253
افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴿١٠٢﴾) (سورۃ الصافات: آیت 102) یعنی: ’’اے میرے بیٹے! میں تجھے اپنے خواب میں ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، اب بتائیں کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا ’’اے میرے ابا جان! جو آپ کو حکم ملا ہے وہ پورا کریں، آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اتنے اہم معاملے میں اپنی اولاد سے مشورہ لے سکتے ہیں تو ہم اپنی اولاد کو ہر معاملے میں بے وقعت اور ناقابل مشورہ کیوں سمجھتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ بعض گھروں میں والدین اور اولاد کے درمیان تنگ نظریاں، تناؤ اور دلی دوریاں قائم رہتی ہیں اور خوشگوار ماحول و خوشکن فضاء اپنی بساط لپیٹ لیتی ہیں یعنی معاملہ کچھ یوں ہوتا ہے۔ کچھ وہ کھچے کھچے رہے، کچھ ہم تنے تنے اسی کش مکش میں ٹوٹ گیا رشتہ چاہ کا لہٰذا اولاد اور والدین کے تعلقات کی استواری میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ نقطہ نظر نہایت حکیمانہ اور دلربا ہے کہ اولاد کو نیکی کے کاموں میں بالخصوص اور دنیاوی امور میں بالعموم شریک رکھا جائے اور اولاد کو مشوروں کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ مشاورت میں بہت برکت ہے، اس سے بڑا فائدہ یہ کہ اتحاد و اتفاق کی فضاء برقرار رہتی ہے اور موجب رحمت خداوندی بھی۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ربانی صادر ہوتا ہے کہ: (وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ) (سورۃ آل عمران: آیت 159) یعنی: ’’معاملات میں اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کر لیا کرو‘‘۔ اور مومنوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ: (وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ) (سورۃ الشوریٰ: آیت 38) یعنی: ’’اور ان کے معاملات آپس میں مشوروں سے چلتے ہیں‘‘۔ معلوم ہوا کہ خانگی نظام یا جماعتی نظام کو قائم رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ
Flag Counter