Maktaba Wahhabi

197 - 253
ہو جاتا ہے۔ جب کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو والد نے حکم دیا کہ: (وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا ﴿٤٦﴾ قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا ﴿٤٧﴾) (سورۃ مریم: آیت 46، 47) یعنی: ’’تو مجھ سے جدا ہو جا (گویا یہ گھر سے نکلنے کا حکم تھا) فرمایا! اچھا تم پر سلام ہو، میں اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا۔ وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے‘‘۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام سب کچھ باپ کے پاس چھوڑ جاتے ہیں بلکہ دعائیں کرتے ہوئے روانہ ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے والدین اگر کچھ عرصہ کے لیے جائیداد نہ دینا چاہیں تو ہم ہر کس و ناکس کے سامنے شکوہ کناں ہوتے ہیں۔ شکایات کے دفاتر کھول دیتے ہیں۔ صبروتحمل کے تمام بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور حصہ وصول کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں۔ بددعائیں ساتھ دیتے ہیں۔ جبکہ اتنے سنگین معاملہ میں بھی باپ کی فرمانبرداری کرنے والے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا یہ تقاضا ہے کہ والدین کے فرامین کو کسی صورت بھی ٹھیس نہ پہنچائی جائے۔ ان کی ادنیٰ سی خوشی پر اپنا مال تک قربان کر دینا چاہیے۔ چہ جائے کہ والدین کی جائیداد کا زبردستی مطالبہ کیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ والد کا فرض ہے کہ اولاد کو برابر کے حقوق دے۔ اگر ایسا نہ کرے تو وہ اولاد کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا مجرم ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بیٹے کو اس کے مال کے بارے میں فرمایا کہ: ((عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ رضي اللّٰه عنه أنَّ رجُلًا قال يا رسولَ اللّٰهِ إنَّ لي مالًا وولَدًا وإنَّ أبي يُريدُ أنْ يجتاحَ مالي فقال أنتَ ومالُكَ لأبيكَ)) [1] ترجمہ: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے پاس میرا مال بھی
Flag Counter