Maktaba Wahhabi

226 - 253
نمونہ ہے کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا: ہم تم سے اور ان سے جن کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے منکر ہیں اور ہمارے اور تمہارے مابین ہمیشہ کے لیے عداوت ظاہر ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ تم اللہ اکیلے پر ایمان لے آؤ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا یہ زندہ جاوید تقاضا ان نام نہاد مسلمانوں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بیدار کر رہا ہے، جو اسلامی تعلیمات کو صرف اپنی برادریوں کے رسم و رواج کی لاج رکھتے ہوئے فراموش کر دیتے ہیں اور خوشی غمی کے موقع پر ہونے والے ان غیر شرعی رسم و رواج کی وجہ سے برادری سے بائیکاٹ کرنے کی بجائے دینی احکام کی صریح مخالفت کرتے ہیں۔ اس مبلغ دین کے لیے سیرتِ ابراہیم علیہ السلام کا یہ تقاضا ایک عملی نمونہ ہے جو برادری اور قوم کو تبلیغ کرنے سے صرف اسی لیے توقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ کہیں برادری روٹھ نہ جائے۔ باپ، دادا کے مراسم تباہ نہ ہو جائیں۔ اور اسی طرح وہ عالمِ دین جو دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قوم کے ہر جائز و ناجائز کام میں شرکت کرنا دینی مصلحت سمجھتا ہے جبکہ اسلام کی سچائی اور حقانیت پر ہمیشہ پردہ ڈالتا ہے۔ کیا بھلا یہ جاہلیت اور جاہلیت کی رسمیں اور اسلامی ثقافت کی مخالفت صرف قومی شیرازہ بندی کی وجہ سے مسلسل اسی طرح قائم نہیں جس طرح آپ علیہ السلام کی قوم میں قومی محبت کی وجہ سے بتوں کی پوجا قائم رہی۔ پھر ایسے لوگوں کا اخروی انجام بھی تو آپ علیہ السلام نے بتایا کہ: (وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللّٰهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ ﴿٢٥﴾) (سورۃ العنکبوت: آیت 25) یعنی: ’’آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش صرف دنیاوی زندگی میں اپنی محبت کو قائم رکھنے کے لیے کی ہے مگر تم سب قیامت
Flag Counter