Maktaba Wahhabi

251 - 253
(فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَىٰ يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ ﴿٧٤﴾ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ ﴿٧٥﴾) (سورۃ ہود: آیت 74، 75) یعنی: ’’فرشتوں کی اجنبیت والا ڈر جب ابراہیم (علیہ السلام) سے جاتا رہا اور بچے کی خوشخبری مل گئی تو آپ (علیہ السلام) قوم لوط کے بارے (ایک مان رکھ کر) ہمارے ساتھ مباحثہ کرنے لگے، بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) بڑے بردبار، نرم دل اور اللہ کی طرف جھکنے والے تھے‘‘۔ ان دونوں مقامات کے سیاق سے واضح ہے کہ آپ علیہ السلام کی سیرت طیبہ میں حلم و بردباری اور دوسروں کی خیرخواہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مگر بعض لوگ بڑے تنگ مزاج ہوتے ہیں، دوسروں کے لیے خیرخواہی تو دور کی بات، خلاف طبع بات کو برداشت کرنے کی بجائے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، سانپ کی طرح پھنکارتے ہیں۔ اور درندوں کی طرح دھاڑتے ہیں، اسی طرح دوسروں کو ترجیح دینے کی بجائے مفاد پرست، خودغرض، لالچی اور حریص ہوتے ہیں جب کہ حلم ایک بہت اچھی صفت ہے جو کہ سیرتِ ابراہیمی کا تقاضا ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم ، قال لأشج عبد القيس : إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللّٰهُ: الْحِلْمُ، وَالْأَنَاةُ)) [1] ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عبدالقیس کو فرمایا کہ آپ کے اندر دو ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے وہ بردباری اور عدم عجلت ہیں (متانت و سنجیدگی)۔ اسی طرح دوسروں کی خیرخواہی بھی بہت بڑی صفت ہے جو کہ معاشرے بلکہ پوری انسانیت کے اتحاد و اتفاق اور عزت و وقار کی ضامن ہے اور ایک داعی الی اللہ کے لیے اس کی بہت ضرورت ہے۔
Flag Counter