Maktaba Wahhabi

39 - 253
’’وہ آپ علیہ السلام کی طرف دوڑتے ہوئے بڑھے۔‘‘ (قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ ﴿٩٥﴾ وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ﴿٩٦﴾ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ﴿٩٧﴾) (سورۃ الصافات: 95 تا 97) یعنی: ’’آپ علیہ السلام نے کہا: ’’کیا ان کی پوجا کرتے ہو جنہیں خود تراشتے ہو، حالانکہ اللہ تمہیں اور تمہارے اعمال کو پیدا کرنے والا ہے۔ (وہ پکڑ دھکڑ کر رہے تھے، آپ علیہ السلام تبلیغ کرتے جا رہے تھے، قوم سنی ان سنی کرتے ہوئے یہی رٹ لگا رہی تھی) کہ ایک عمارت بناؤ (اس میں آگ جلاؤ اور) اس کی دہکتی آگ میں اس کو ڈال دو۔‘‘ اور حیرانی کی بات یہ کہ فہم و فراست سے کورے کہہ رہے تھے: (قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ﴿٦٨﴾) (سورۃ الانبیاء: 68) یعنی: ’’اس کو جلا کر اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر کر سکتے ہو۔‘‘ یعنی اپنی ہی زبانوں سے اپنے معبودوں کی بے کسی کا نوحہ کر رہے تھے، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شکایت ہے کہ وہ عقل و شعور سے عاری ہوتے ہیں۔ سچ ہے: سمجھ تو آ سکتا ہے نقطہ توحید مگر تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے حکمرانوں اور عوام کے اسی فیصلے کے مطابق ایک بہت بڑی عمارت میں آگ سلگائی گئی، جس میں آپ علیہ السلام کو ڈال دیا گیا، اب ہر فرد منتظر تھا کہ ابھی ابھی ہمارے بزرگوں کا گستاخ جل کر راکھ ہو جائے گا، اور ہمارے بزرگوں کی عظمت قائم رہے گی، ہمارا مذہب سچا ثابت ہو گا، مگر اللہ رب العزت بھی اپنے وفادار بندے کو بے یارومددگار ہرگز نہیں چھوڑتا، چنانچہ رحمتِ خداوندی جوش میں آتی ہے اور آسمانوں سے حاکمِ مطلق کا حکم آگ پر نافذ ہوتا ہے:
Flag Counter