Maktaba Wahhabi

115 - 292
’’تو کیا تم نے گمان کر لیا کہ ہم نے تمھیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ بے شک تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟‘‘ اللہ تعالیٰ کا کمال اور جلالت و عظمت اس بات کا انکار کرتی ہے کہ اس نے زمین و آسمان وغیرہ کو عبث اور بیکار بنایا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو کسی شریک، اولاد، بیوی اور تمام نقائص سے پاک قرار دیا ہے۔ جیسے اونگھنا، سونا، تھکاوٹ، محتاجی اور بغیر اجازت کسی کی سفارش کا کرنا، یہ سب اللہ کے کمال کے منافی ہیں۔ مقصودیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امیری اور غریبی دونوں کو آزمائش اور امتحان کی سواریاں بنایا ہے، مال صرف فائدہ اٹھانے کے لیے نہیں بنایا۔ جیسا کہ حدیث قدسی ہے: ’’ہم نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مال نازل فرمایا ہے، اگر ابن آدم کے پاس ایک بستی بھر کر مال دے دیا جائے تو وہ دوسری بستی کی طرف رخ کرے گا اور اگر دوسری بھی دے دی جائے تو وہ تیسری کی طرح رخ کرے گا۔ ابن آدم کے پیٹ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔‘‘ [1] اللہ تعالیٰ نے یہاں خبر دی ہے کہ مال اس لیے اتارا تاکہ اللہ کے حق کو قائم کرنے کے لیے تعاون حاصل ہو۔ اور بندے کے حق کی ادائیگی یعنی زکوٰۃ کے لیے تعاون حاصل ہو۔ صرف دنیاوی فائدے اور لذت کے لیے مال نہیں بنایا گیا، جب مال اس سے زیادہ ہو اور ان دو مقصودوں سے زائد ہو تو وہ صرف پیٹ کی خاطر ہے اور اس کے لائق اور مناسب مٹی ہے۔ وہ پیٹ جو اس چیز سے بھرا ہو جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے یعنی رب کی پہچان، اس پر ایمان لانا اور اسی سے محبت کرنا، تو یہ مناسب ہے اگر انسان کا پیٹ رب کی پہچان وغیرہ سے بھرا ہوا اور اس کے برعکس سے بہتر ہے، ورنہ مٹی ہی اس کے مناسب ہے۔ مال اگر مال والے کے فائدے کا باعث نہ بنے تو اسے نقصان دیتا ہے۔ جس طرح علم، بادشاہت اور طاقت اگر فائدہ نہ دیں تو نقصان دہ ہوتی ہیں۔ یہ تمام چیز مقصود کو پانے کے لیے وسیلہ ہیں، اگر مقصود و منزل حاصل کرنے کے لیے وسیلہ نہیں اپناؤگے تو مقصود اور
Flag Counter