دنیا بذات خود بری نہیں ہے بلکہ بندوں کے اس دنیا میں اعمال برے ہیں ورنہ یہ تو جنت یا جہنم میں داخلے کے لیے ایک پل ہے۔ کیونکہ جب لوگوں پر خواہشات غالب آگئیں اور غفلت و اعراض غالب آگیا اور رہنے والوں کی یہ عام صفت بن گئی تو اس پر مذمت غالب آگئی ورنہ حقیقت میں دنیا ایک امتحان گاہ ہے، جو یہاں کامیاب ہو گیا وہ آگے بھی کامیاب ہو جائے گا اور جو یہاں ناکام ہو گیا وہ آخرت میں بھی ناکام ہو جائے گا۔
آخرت کے حصول کے لیے محنت:
جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا کی حقیقت بتا دی تو حکم دیا کہ وہ آخرت کی طرف بڑھنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں اور اس زندگی کے لیے محنت کریں جو ہمیشہ رہنے والی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ) (یونس:24)
’’دنیا کی زندگی کی مثال تو بس اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے ساتھ زمین سے اگنے والی چیزیں خوب مل جل گئيں، جس سے انسان اور چو پائے کھاتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی آرائش حاصل کرلی اور خوب مزین ہوگئی اور اس کے رہنے والوں نے یقین کر لیا کہ بے شک وہ اس پر قادر ہیں تو رات یا دن کو اس پر ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اسے کٹی ہوئی کر دیا، جیسے وہ کل تھی ہی نہیں۔‘‘
|