Maktaba Wahhabi

135 - 292
’’جو غازی اللہ کے راستے میں نکلتا ہے اور غنیمت حاصل کرتا ہے اسے دو تہائی اجر دنیا میں مل جاتا ہے اور ایک تہائی باقی رہ جاتا ہے، اگر غنیمت نہ ملتی تو ان کو پورا اجر ملتا ہے۔‘‘ [1] سیّدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ہم نے اللہ کی رضا کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی، اللہ کے ذمے ہمارا اجر ہو گیا۔ ہم میں سے کچھ فوت ہو گئے اور انھوں نے کوئی اجر نہیں کھایا، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی انھی میں سے تھے جو احد کے دن شہید ہوئے ، کفن پہناتے ہوئے اگر چہرا ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا اور اگر سر ڈھانپتے تو چہرہ ننگا ہو جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سر کو ڈھانپ دیا جائے اور پاؤں پر اذخر گھانس ڈال دی جائے ۔ ہم میں سے بعض وہ ہیں جن کے پھل پک چکے ہیں اور وہ اس میں سے لے رہا ہے۔‘‘ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکابر صحابہ دنیاوی مال اور آسائش کو پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا وہ بہتر ہے۔ ان میں ابو بکر، عمر، عثمان، علی، ابو عبیدہ، عمار بن یاسر، سلمان، عبداللہ بن مسعود، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھم اور دیگر صحابہ کی جماعت شامل ہے۔ ان کے بارے میں ہم مختصر بیان کریں گے۔ سیّدناابو بکر رضی اللہ عنہ : …زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، انھوں نے پانی منگوایا۔ پانی اور شہد پیش کیا گیا۔ جب منہ کے قریب کیا تو رو پڑے، اتنا روئے کہ قریب کھڑے ہوئے لوگ بھی رونے لگے۔ پھر خاموش ہوئے اور دوبارہ پھر رو پڑے، حتیٰ کہ لوگ سمجھے کہ آج کا مسئلہ بیان نہیں کر سکیں گے۔ پھر کسی نے پوچھا اے رسول اللہ کے خلیفہ! کس چیز نے تمھیں رلا دیا؟ انھوں نے فرمایا: ’’ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر ایک چیز سے اپنا دفاع کرتے تھے، آج میرے ساتھ دفاع کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔‘‘ کسی نے سوال کیا کس چیز سے دفاع کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا:
Flag Counter