Maktaba Wahhabi

147 - 292
بنانے اور بادشاہ نبی بنانے کی پیش کش کی گئی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا، اور اگر تمام جزیرہ عرب کا مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھنچا چلا آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارا مال خرچ کر دیتے اور اپنے لیے کچھ نہ رکھتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے عیال کی ذمہ داری اٹھائی اور فرمایا: ’’ کوئی مسلمان جب فوت ہو جائے تو اس کا مال وارثوں کے لیے، اور اگر قرض چھوڑ جائے تو وہ میرے ذمے ہے۔‘‘ [1] جب غنی شاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت سے غنی کی فضیلت پر استدلال کرے تو یہ اس کے لیے درست نہیں ہے جیسا کہ غریب صابر کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت سے استدلال اس وقت تک درست نہیں ہے جب تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا صبر نہ کرے۔ تم جس زہد کا ذکر کر رہے ہو وہ غنی کے منافی نہیں ہے بلکہ مال دار کا زہد فقیر کے زہد سے افضل ہے۔ جیسا کہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام مال دار تھے اور لوگوں میں سب سے زیادہ زہد والے تھے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے دنیا میں زہد حلال کو حرام کرنے یا اسے ضائع کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ زہد یہ ہے کہ جو چیز تیرے ہاتھ میں ہے، تجھے اس پر اس مال سے زیادہ یقین نہ ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے، تجھے آنے والی مصیبت پر ثواب کی اس سے زیادہ امید ہو کہ اگر وہ باقی رہتی۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ جس کے پاس ایک ہزار دینار ہوں وہ زاہد کیسے ہو سکتا ہے؟ انھوں نے فرمایا: ’’جی ہاں! اس شرط پر کہ اس کے زیادہ ہونے پر اسے فخر نہ ہو اور کم ہونے پر اسے افسوس نہ ہو۔‘‘ سلف میں سے بعض کا قول ہے : ’’زاہد وہ ہے جس کے شکر پر حلال اور صبر پر حرام غالب نہ آئے ۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’زہد بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دینا اور
Flag Counter