Maktaba Wahhabi

172 - 292
نے فرمایا کہ یہ پہلی بدعہدی ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جاؤں گا۔ ان شہید ہونے والوں کا اقتداء ہی مجھے پسند ہے۔ انہوں نے زبردستی ان کو کھینچنا چاہا مگر وہ نہ ٹلے تو ان لوگوں ے ان کو بھی شہید کر دیا، صرف دو حضرات ان کے ساتھ رہے۔ جن کو لے جا کر انہوں نے مکہ والوں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ ایک حضرت زید بن وثنہ جن کو صفوان بن امیہ نے پچاس اونٹوں کے بدلہ میں خریدا تھا کہ اپنے باپ امیہ کے بدلہ میں ان کو قتل کر دے، دوسرے حضرت حبیب حجیر بن ابی اہاب نے سو اونٹ کے بدلے میں خریدا تھا کہ اپنے باپ کے بدلہ میں ان کو قتل کر دے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حارث بن عامر کی اولاد نے خریدا کہ انہوں نے بدر میں حارث کو قتل کیا تھا۔ صفوان نے تو اپنے قیدی حضرت زید کو فوراً ہی حرم سے باہر اپنے غلام کے ہاتھ بھیج دیا تاکہ قتل کر دئیے جائیں ان کا تماشا دیکھنے کے لیے اور بھی بہت سے لوگ جمع ہو گئے ۔ جن میں ابوسفیان بھی تھا، اس نے حضرت زید کی شہادت کے وقت پوچھا: اے زید! تجھ کو خدا کی قسم سچ کہنا کیا تجھ کو یہ پسند ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن تیرے بدلہ میں مار دی جائے اور تجھ کو چھوڑ دیا جائے کہ تو اپنے اہل وعیال میں خوش وخرم رہے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا کی قسم مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جہاں ہیں وہاں ان کو ایک کانٹا بھی چبھے اور ہم اپنے گھر میں آرام سے رہیں یہ جذبہ سن کر قریش حیران رہ گئے ابوسفیان نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو جتنی محبت ان سے دیکھی ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اس کے بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے ۔ حضرت حبیب رضی اللہ عنہ ایک عرصہ تک قید میں رہے۔ حجیر کی باندی جو بعد میں مسلمان ہوگئی تھی کہتی کہ جب ان کے قتل کا وقت قریب آیا یعنی جب قید میں تھے تو دیکھا کہ حبیب رضی اللہ عنہ ایک دن انگور کا بڑا خوشہ ایک آدمی کے سر کے برابر تھا ہاتھ میں لیے ہوئے کھا رہے تھے اور مکہ میں اس وقت بالکل انگور نہیں تھا۔ چنانچہ جب آپ کے قتل کا وقت قریب آیا تو آپ کے قتل کی منادی کرا دی گئی یہ سن کر ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی کوئی خواہش ہو تو بتلاؤ۔ چنانچہ اس عورت نے استرہ حضرت حبیب کو بھیج دیا اتفاق سے اس کا کم سن بچہ ان کے
Flag Counter