Maktaba Wahhabi

185 - 292
مددگار نہیں تھا۔ (سیرت النعمان: ص77) مزید تصدیق کے لیے ارشاد نبوی ملاحظہ کیجیے: ((انہ کاءن فی امتی ما کان فی بنی اسرائیلی حتّٰی اِنَّ الْمِنْشَارَ لیوضع علی مفرق راس احد ہو بابعدہ ذالک عن دینہ۔)) ’’میری امت میں بنی اسرائیل کی طرح ایسے لوگ بھی ہوں گے کہ اگر ان کے سر پر آرہ بھی رکھ دیا جائے تو یہ دردناک حادثہ ان کو اظہار حق سے باز نہیں رکھ سکے گا۔‘‘ علامہ ابن قدامہ یہ روایت ذکر کر کے فرماتے ہیں: ’’اگر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں پورا عزم واستقلال نہ دکھاتے تو امت کے لیے قیامت تک عار اور شرمندگی کا باعث ہوتا۔ اس وقت پوری قوم سوائے احمد بن حنبل کے کوئی بھی میدان میں نہ نکلا۔‘‘ علامہ شعرانی طبقات الکبریٰ میں لکھتے ہیں : خلیفہ مامون عباسی جب کہ معتزلہ جیسے بدترین وگمراہ فرقہ کا عقیدت مند ہوگیا تو اس نے فیصلہ کیا کہ قانونی طور پر مسئلہ خلق قرآن کو اسلام کا بنیادی عقیدہ قرار دیا جائے ۔ تو اس نے عوام وخواص سے بزور شمشیر جبراً قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار لینا شروع کیا اور اپنےعمال کو حکم دیا کہ جو مسلمان اس بنیادی عقیدہ سے انحراف کرے۔ اسے سخت سے سخت سزا دی جائے اگر وہ اپنی ضد سے باز نہ آئے تو اسے ہمارے روبرو پیش کیا جائے تاکہ اس آخری فہمائش کے بعد اپنے روبرو پیش کیا جائے تاکہ ہم اسے قتل کر کے دوسروں کے لیے عبرت قرار دیں۔ چنانچہ ان گنت و بے شمار علمائے حق کے قتل وخون ناحق سے اس نے اپنے ہاتھ رنگین کیے اور ارض بغداد کو لالہ زار بنا دیا۔ یہ ہیبت ناک منظر وانجام دیکھ کر اسلامی دنیا میں تہلکہ برپا ہوگیا۔ اس عہد کے مشاہیر اسلام کی اکثریت نے اس مسئلے میں سکوت کو سلامتی یقین کیا۔اور بعض نے تقیہ کے طور پر دھوکا دے کر زبانی اقرار سے نجات چاہی لیکن امام السنہ جو کہ روز
Flag Counter