Maktaba Wahhabi

190 - 292
’’احمد کا قول واقرار ہی اس امر میں قول فعیل ہے پس جو کچھ احمد نے اقرار کیا وہی ہمارا قول اور عقیدہ ہے۔ یہ انتہائی وارننگ یا آخری مطمئن قول سن کر احمد نے کہا اللہ ہی مجھے کافی ہے۔‘‘ شعرانی لکھتے ہیں کہ امام السنہ چار بوجھل بیڑیوں سے جکڑ کر انتہائی ذلت سے جیل میں بند کر کے سرخیل معتزلہ ابن ابی داؤد کے ساتھ مناظرہ کے لیے جب مجبور کیا جاتا تو وہ مردود ہمیشہ ذلت وحقار آمیز لہجہ سے دلائل باطلہ دے کر اور ترہیب و ترغیب وغیرہ سے خلق قرآن کے اقرار پر مجبور کیا جاتا۔ لیکن امام صاحب اس عزم و استقلال اور انتہائی جرات سے براہین قاطعہ اور دلائل ساطعہ پیش کرتے کہ ختان حیران وششدر اور لاجواب ہو کر شرمند ہو جاتا۔ بالآخر مجسم شیطان نے خلیفہ سے کہا کہ احمد ضال مضل مبتدع ہے احمد ایسا گمراہ اور کڑا ضدی اور بدعتی ہے کہ اس سے خلق قرآن کے اقرار کی قطعاً توقع اور امید نہیں۔ ادھر وہ امام السنہ سے کہنے لگا کہ احمد! خلیفہ نے قسم کھا رکھی ہے کہ تجھے تلوار سے قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ کوڑوں کی ضربات سے سسکا سسکا کر مارا جائے گا پس جب معتزلہ مردود اور خلیفہ دونوں مایوس و بے امید ہوچکے تو معتزلی نے کہا کہ اے امیرالمومنین! اب احمد سے کہنا سننا لاحاصل ہے اس کا واحد علاج تلوار ہے لہٰذا اس کو قتل کیجیے اور اس کا خون ہماری گردنوں پر ڈالیے جس سے خلیفہ جوش وغصہ سے دیوانہ ہو کر اٹھا اور احمد کے منہ پر اس زور سے تھپڑ مارا کہ آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ چنانچہ یہ دیکھ کر خلیفہ گھبرایا اور پانی منگوا کر آپ کے چہرہ مبارک پر چھڑکنے لگا یہاں تک کہ آپ کو ہوش آگئی۔ صاحب مشکوٰۃ اکمال میں لکھتے ہیں کہ حضرت میمون بن اصنع کہتے ہیں کہ میں بغداد میں تھا کہ اچانک شور وغوغا کی آواز بلند ہوئی میں نے دریافت کیا تو لوگوں نے جواب دیا کہ امام احمد آزمائے جا رہے ہیں۔ یہ معلوم کر کے میں بھی امتحان بارگاہ میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوڑے کی ضرب شدید پر آپ کی زبان مبارک سے بسم اللہ کی آواز سنائی دی۔دوسری ضرب پر لاحول ولا قوۃ الا باللہ کی آواز بلند ہوئی اور پھر جب تیسری ضرب لگی تو آپ نے بلند
Flag Counter