Maktaba Wahhabi

272 - 292
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: ’’میرے نزدیک میرے اس بندۂ مؤمن کے لیے اہل دنیا میں سے جس کے محبوب کو میں نے اٹھالیا ہو اور وہ اس پرصبر وتحمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اجر و ثواب کی امید رکھے) جنت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔‘‘[1] اس عورت کا قصہ مشہور ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی بشرطیکہ وہ صبر وتحمل سے کام لے، چنانچہ اس بارے میں سیّدنا عطاء بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ کیا میں تمہیں زمین پر جنتی عورت کا مشاہدہ نہ کروا دوں؟‘‘ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ اتنی دیر میں ایک کالی عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اوراس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپناماجرابیان کیا کہ مجھے مرگی کی بیماری ہے یا مجھ پر غشی طاری ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے میں برہنہ ہوجاتی ہوں۔ لہٰذااللہ تعالیٰ سے میرے لیے دعا کیجئے۔ تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو جواب دیا کہ اگر تم چاہو تو صبروتحمل سے کام لو اور اس کے بدلے تیرے لیے جنت ہے اور اگر تم چاہو تومیں اللہ تعالیٰ سے دعا کیے دیتا ہوں کہ وہ تجھے اس بیماری سے نجات دے دے ۔ تواس عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامشورہ سن کر کہا کہ میں صبرکروں گی!مگراتناضرورکہوں گی کہ یہ جومیں برہنہ اور عریاں ہوجاتی ہوں، اس بارے میں میرے لیے دعا کیجیے کہ میں عریاں نہ ہوا کروں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی۔[2] اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو مخاطب کرکے یہ خوشخبری سنائی ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ان کے لیے جنت تو ہے مگر جنت کے حصول سے پہلے اس کے لیے ابتلاء وآزمائش بھی ناگزیر ہے اور اس پر صبرکرنا بندۂ مؤمن کا شیوۂ بندگی ہونا ضروری ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter