Maktaba Wahhabi

82 - 292
دینے کے طور پر یہ بات کی تھی نہ کہ شکوہ کے طور پر۔ جب مریض اللہ کی حمد بیان کرے پھر اپنی بیماری کی اطلاع دے تو یہ شکوہ نہیں ہوگا، اور اگر ناراضگی کا اظہار کرتا ہے تو یہ اس کی طرف سے شکوہ ہوگا۔ زبان کے الفاظ پر کبھی اجر ملتا ہے اور کبھی مؤاخذہ ہوتا ہے۔ ثابت بنائی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: ہم ربیعہ بن حارث رحمۃ اللہ علیہ کی عیادت کرنے کے لیے گئے، انھوں نے فرمایا : ’’جو میرے جیسی حالت میں ہوتا ہے اس کا دل آخرت کی فکر سے بھرا ہوتا ہے، اور دنیا کی حیثیت اس کے سامنے مکھی کے پر کے برابر بھی نہیں ہوتا۔‘‘[1] ’’مریض کی دعا رد نہیں ہوتی جب تک افاقہ نہ ہو جائے۔‘‘[2] سیّدناابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے میں نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مسکرائے کیوں تھے؟ آپ نے فرمایا : ’’مومن کی بیماری پر بے بسی دیکھ کر، اگر اسے پتہ چل جائے کہ بیماری کے کیا فوائد ہیں تو وہ پسند کرے کہ موت تک بیمار رہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرائے اور سر آسمان کی طرف اٹھایا میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں مسکرائے اور سر آسمان کی طرف کیوں اٹھایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے دو فرشتوں پر تعجب ہوا جو مومن بندے کو نماز کی جگہ پر تلاش کرنے آئے، اسے وہاں نہ پاکر اللہ کے حضور عرض کیا اے اللہ! فلاں مومن بندے کا ہم روزانہ یہ اجر لکھتے تھے۔ اب تیری رسیوں میں سے کسی رسی نے اسے جکڑ لیا ہے تو ہم اس کا عمل نہیں لکھ پائے، اللہ نے فرمایا : میرے بندے کے اعمال اتنے ہی لکھ دو جتنے وہ کرتا ہے، جتنا میں نے اسے روکا ہے اتنا اس کا اجر مجھ پر ہی ہے، اس کے لیے اس کا اجر ہے جو وہ عمل کرتا تھا۔‘‘[3] ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ بیماریاں کیا ہوتی ہیں؟ اللہ کی قسم میں کبھی بیمار نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
Flag Counter