Maktaba Wahhabi

58 - 338
اے اللہ! ہمیں اس شہر سے، جس کے رہنے والے ظالم ہیں، نکال کر کہیں اور لے جا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما۔‘‘ ان احکام سے واضح ہے کہ اسلام میں جنگ کو اختیار کیا گیا ہے تو یہ ملک گیری کے لیے ہے نہ ہوسِ حکمرانی کے لیے بلکہ ضعیفوں، عورتوں اور بچوں کو ظالموں کے پنجہ سے رہائی دینے کے لیے جنگ کو اختیار کیا گیا تھا۔ اور نہ تلوار کا خوف دلاکر کلمۂ اسلام پڑھوانے کے لیے، بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں و غیرہ کے معابد کو حفاظت و حمایت میں مثل مساجد لے کر ان سب کو انہدام سے بچانے کے لیے۔ کیا کسی اور مذہب کی مقدس کتاب سے بھی یہ بیان مل سکتا ہے کہ ادیانِ مختلفہ کے بچاؤ اور ان کی عبادت گاہوں کے قیام کے واسطے کسی قوم نے جنگ کی ہو، اگر نہیں، اور ہم کو وثوق کے ساتھ یقین ہے کہ ہرگز نہیں، تو سب کو اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ رحمۃ لّلعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی رحمتِ قلبی کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے جنگ کا مقصد ایسا مقدس بنایا جس سے آج دنیا کا کوئی مذہب انکار نہیں کرسکتا۔ ایسی ضروری جنگ کے لیے رحمۃ لّلعالمین صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی ضروری ٹھہراتے ہیں کہ الٹی میٹم ایک لمبے وقت کا دیا جائے تاکہ اس عرصہ میں باہمی سمجھوتے کی ایسی صورتیں نکل آئیں، جن سے جنگ ٹل ہی جائے۔ قرآن مجید میں ہے: { فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ اعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُخْزِی الْکٰفِرِیْنَ} [التوبۃ: ۲] ’’تو (مشرکو!) تم زمین میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہ کر سکو گے اور یہ بھی کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔‘‘
Flag Counter