جنگ کے لیے اتنی مہلت کا دیا جانا ہی رحمت ہے لیکن جنگ شروع ہوجانے کے بعد مستثنیات کا خاص طور پر ذکر ہے:
{ اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ اَوْ جَآئُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُکُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَھُمْ وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَسَلَّطَھُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقٰتَلُوْکُمْ} [النساء: ۹۰]
’’مگر جو لوگ ایسے لوگوں سے جا ملے ہوں جن میں اور تم میں (صلح کا) عہد ہو یا اس حال میں کہ اُن کے دل تمھارے ساتھ یا اپنی قوم کے ساتھ لڑنے سے رک گئے ہوں، تمھارے پاس آجائیں (تو احتراز ضروری ہے) اور اگر اللہ چاہتا تو اُن کو تم پر غالب کر دیتا تو وہ تم سے ضرور لڑتے۔‘‘
ایسے لوگ جنگ سے مستثنیٰ ہوں گے۔ چنانچہ صاف لفظوں میں فرمایا:
{ فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَ اَلْقَوْا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْھِمْ سَبِیْلًا} [النساء: ۹۰]
’’ پھر اگر وہ تم سے (جنگ کرنے سے) کنارہ کشی کریں اور لڑیں نہیں اور تمھاری طرف صلح (کا پیغام) بھیجیں تو اللہ نے تمھارے لیے اُن پر (زبردستی کرنے کی) کوئی سبیل مقرر نہیں کی۔‘‘
خیال کریں کہ یہ احکام کس طرح ظاہر کرتے ہیں کہ اس جنگ کا مقصد دین کو بہ جبر قبول کروانا ہرگز نہیں۔
غور کریں کہ ایک معاہد قوم کا وجود بھی آپ کو نظر آئے گا، جو مسلمان نہیں، اگر مسلمان ہوتے تو ان سے مسلمانوں کا تعلق {بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ} ہی کا نہ ہوتا بلکہ وہ تو {فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ} کے درجے میں ہوتے۔
|