Maktaba Wahhabi

112 - 253
لہٰذا سیرت ابراہیم علیہ السلام سے ہمیں یہ عقیدہ ملتا ہے کہ نبی ولی بھی کسی کو ہدایت دینے کے اختیارات نہیں رکھتے۔ آپ ابھی ابھی پڑھ آئے ہیں کہ نوح علیہ السلام نے کنعان بیٹے کی خاطر کتنی کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کی صف میں شریک ہو جائے مگر نہ ہو سکا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے لیے کوشش اس کی زندگی کے آخری دم تک کی مگر وہ ہدایت نہ پا سکا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿٥٦﴾) (سورۃ القصص: آیت 56) یعنی: ’’اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، اللہ ہی ہے جو جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والے لوگوں کو خوب جانتا ہے‘‘۔ اسی عقیدہ کا اظہار سیدنا ابراہیم علیہ السلام زندگی کے ہر لمحہ میں فرما رہے ہیں، کبھی قوم سے فرماتے ہیں: (لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ﴿٧٧﴾) (سورۃ الانعام: آیت 77) یعنی: ’’اگر میرا رب میری رہنمائی نہ کرے تو میں گمراہوں میں سے ہو جاؤں گا‘‘۔ نیز فرماتے ہیں:(إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي سَيَهْدِينِ ﴿٩٩﴾) (سورۃ الصافات: 99) مزید فرماتے ہیں:(الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ ﴿٧٨﴾) (سورۃ الشعراء: آیت 78) یاد رہے کہ لفظ ہدایت کے دو معانی ہیں، ایک یہ کہ دین کی راہ پر انسان کا دل و دماغ لگا دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، دوسرا یہ کہ دین کی راہ دکھانا اور منزل مقصود کی مکمل رہنمائی کرنا، یہ کام ہر پیغمبر کی ذمہ داری تھی جس میں انہوں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی ذمہ داری کو کماحقہ بجا لانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٥٢﴾) (سورۃ الشوریٰ: آیت 52)
Flag Counter