Maktaba Wahhabi

141 - 253
(يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَـٰنِ عَصِيًّا ﴿٤٤﴾)(سورۃ مریم: آیت 44) یعنی: ’’اے میرے ابا جان! شیطان کی عبادت نہ کر بلاشبہ شیطان اللہ تعالیٰ کا بہت نافرمان ہے‘‘۔ آپ علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ بتوں کی پوجا نہ کریں بلکہ یہ فرمایا کہ شیطان کی عبادت نہ کریں۔ حالانکہ جاہل سے جاہل انسان بھی یہ نہیں کہتا کہ میں شیطان کا تابع فرمان ہوں یا شیطان کی عبادت کرتا ہوں تو پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے باپ کو یہ کیوں فرمایا کہ شیطان کی عبادت نہ کریں؟ مقصد یہ تھا کہ شیطان کے کہنے پر بتوں کی پوجا دراصل شیطان کی پوجا ہے گویا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے مقابلے میں جس کی بات مانی جائے گویا کہ اس کو رب مان کر اس کی عبادت کی جا رہی ہے۔ اب رہا یہ مسئلہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننا ان کی عبادت تو نہیں؟ ہرگز نہیں کیونکہ: 1۔ کسی رسول کی بات اللہ کی بات کے مقابلے میں نہیں ہوتی بلکہ اسی کی ترجمان ہوتی ہے۔ (لہٰذا کوئی حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہوتی اور نہ وہ ضعیف ہوتی ہے) 2۔ وہ بات دراصل اللہ ہی کی بات ہوتی ہے رسول تو ایک پیغام رساں ہوتا ہے۔ لہٰذا رسول کی بات ماننا اللہ ہی کی بات ماننا ہے۔ اور رسول کی تکذیب اللہ ہی کی تکذیب ہے۔ دو آیات ملاحظہ فرمائیں: (مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰه ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ﴿٨٠﴾) (سورۃ النساء: آیت 80) "جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرے گا گویا کہ اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا‘‘۔
Flag Counter