Maktaba Wahhabi

142 - 253
(فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّٰهِ يَجْحَدُونَ ﴿٣٣﴾)(سورۃ الانعام، آیت: 33) یعنی: ’’سو یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کی فرمانبرداری کے لیے اطاعت کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جبکہ دین کے معاملے میں کسی دوسرے انسان کی بات ماننے کے لیے لفظ اطاعت نہیں بلکہ تقلید کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی تقلید کو اس مُقَلد (جس کی تقلید کی جا رہی ہو) کی عبادت کہا جاتا ہے۔ لہٰذا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا بَین تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مقابلے میں کسی بھی پیر فقیر امام مجتہد کی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ اب بلا دلیل شریعت کے مقابلے میں کسی کی بات ماننا اس کی تقلید اور اس کی عبادت ہے جو عمل کے لحاظ سے صریح شرک ہے۔ اسی شرک سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو منع فرما رہے ہیں اور قرآن کریم کا بھی یہی اسلوب ہے، ملاحظہ فرمائیں سورۃ الشوریٰ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللّٰهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٢١﴾)(سورۃ الشوریٰ: آیت 21) یعنی: ’’کیا ان لوگوں نے ایسے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں، جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دئیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں، اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کر دیا جاتا یقیناً ان ظالموں کے لیے ہی دردناک عذاب ہے‘‘۔ اہل کتاب جو اپنے علماء کے کہنے پر اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام سمجھ لیتے تھے اور حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھ لیتے تھے۔ ان کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو گویا کہ رب بنا لیا ہے اور ان کی عبادت
Flag Counter