Maktaba Wahhabi

164 - 253
آج ہم نام نہاد مسلمانوں کی طبع نازک پر احکامِ دین بڑے ناگوار گزرتے ہیں، نماز کو قید، رمضان کو بھاری سمجھنے والا آسائشوں کا رسیا مسلمان اسلام کی خاطر معمولی سی تکلیف بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں، اگر اس مالک و رازق اللہ منعمِ حقیقی کی طرف سے چھوٹی سی آزمائش آتی ہے تو اس کی شکووں بھری زبان کھل جاتی ہے اور: (إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا ﴿٢٠﴾) (سورۃ المعارج: آیت 20) کا مصداق ٹھہرتا ہے اور صبرواستقامت کا دامن تار تار کر بیٹھتا ہے، چونکہ اسلام وراثت میں مل گیا اب وہ دین کی خاطر قربانیاں دینا ایک گزرا ہوا خواب یا صرف بزرگوں کی داستان سمجھتا ہے اور بس۔ جبکہ اسلام کی فطرت یہ ہے کہ اپنے ماننے والوں کو آزمائشوں سے گزار کر مِس خام کو کندن بنائے اور کھرے کھوٹے کی تمیز کرے، اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ اپنوں کو پریشانی و پیشمانی، خوف و خطر، فقر و افلاس، قحط الاموال اور قحط الرجال جیسی آزمائشوں میں ڈالتا ہے اور پھر استقامت کا دامن تھامنے والوں کی ہر لمحہ نصرت فرما کر دنیا و آخرت کے درجات سے نوازتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وصیت کے طالب کو استقامت کی ہی وصیت فرماتے ہیں، سیدنا سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ نے کہا: ((يا رَسولَ اللّٰهِ، قُلْ لي في الإسْلامِ قَوْلًا لا أسْأَلُ عنْه أحَدًا بَعْدَكَ قالَ: قُلْ: آمَنْتُ باللّٰهِ، ثم اسْتَقِمْ)) [1] ترجمہ: اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام میں کوئی ایسی بات بتائیں جس کے بارے میں مجھے آپ کے بعد کسی اور سے نہ پوچھنا پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تو کہہ کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ڈٹ جا‘‘۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اسلام لانے اور عقیدہ توحید اپنانے کے بعد مصائب و آلام کا آنا لازمی ہے اور کامیابی استقامت میں ہی ہے اور یہی بات قرآنِ
Flag Counter