کو ان تک پہنچانے لگے اور ایک خط دے کر سارہ نامی عورت کو مکہ روانہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ معلوم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، سیدنا زبیر اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہم کو فرمایا کہ وہ عورت روضہ خاخ مقام پر جا رہی ہے، اس سے خط لے لو تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاری کہ:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ) (سورۃ ممتحنہ: آیت 1)
یعنی: ’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم ان کی طرف محبت کا پیغام ڈالتے ہو‘‘۔
اسی مضمون کی تفصیل کرتے ہوئے سورت کے آخر پر فرمایا کہ اس ضمن میں تم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کو نمونہ بناؤ۔
(قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللّٰهِ وَحْدَهُ)(سورۃ ممتحنہ: آیت 4)
یعنی: ’’تمہارے لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے انکاری ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ، اس وقت تک ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لیے بغض اور عداوت ظاہر ہو گئی ہے‘‘۔
بلکہ آپ علیہ السلام نے قوم پر یہ واضح کیا کہ تم اپنی دوستانہ محبت اور قرابتوں کی لاج کی وجہ سے شرک میں گرفتار ہو فرمایا:
(وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللّٰهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ
|