Maktaba Wahhabi

175 - 253
النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ ﴿٢٥﴾) (سورۃ العنکبوت: آیت 25) یعنی: ’’آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش صرف دنیا کی زندگی میں اپنی دوستی قائم رکھنے کے لیے کرتے ہو مگر تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے کفر کرنے لگو گے اور ایک دوسرے پر لعنتیں کرنے لگو گے اور تمہارا سب کا ٹھکانا دوزخ ہو گا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہو گا‘‘۔ یعنی تم اپنی دوستی کی وجہ سے شرکیہ دین کو نہیں چھوڑتے جب کہ ہم دین کی وجہ سے دوستیوں اور رشتہ داریوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے رشتہ داریوں اور دوستیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دین حنیف کے لیے یکسو ہو کر اپنے رب کی فرمانبرداری کی تو پھر اس پروردگار نے بھی دوستی اور قرابت کا معیار ایمان کو ہی ٹھہرا دیا اور فرمایا: (إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٨﴾) (سورۃ آل عمران: آیت 68) یعنی: ’’بےشک ابراہیم (علیہ السلام) کا قریبی وہی ہے جس نے آپ (علیہ السلام) کی اتباع کی اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ایمان والے اور اللہ بھی ایمان والوں کا دوست ہے‘‘۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إنَّ لِكلِّ نبيٍّ ولاةً منَ النَّبيِّينَ وإنَّ وليِّيَ أبي وخليلُ ربِّي. ثمَّ قرأَ (إنَّ أولى النّاسِ بإبراهيمَ للَّذينَ اتَّبعوهُ وَهذا النَّبيُّ والَّذينَ آمنوا واللّٰهُ وليُّ المؤمنين))) [1] ترجمہ: ’’ہر نبی کے نبیوں میں سے کچھ دوست ہوتے ہیں، میرے دوست ان میں سے میرے باپ اور میرے رب کے خلیل ابراہیم علیہ السلام ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا آیت تلاوت کی۔ اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سیدنا نوح علیہ السلام کو ان کے بیٹے کنعان کے بارے میں
Flag Counter