Maktaba Wahhabi

35 - 253
یعنی: ’’آپ علیہ السلام نے اپنے باپ اور قوم سے فرمایا: ’’یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو کیا چیز ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے باپ دادا کو انہیں کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’تم اور تمہارے باپ دادا سبھی یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں‘‘۔ وہ کہنے لگے: کیا آپ ہمارے پاس سچی خبر لائے ہیں یا یونہی مذاق کر رہے ہیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’مذاق نہیں بلکہ یقیناً تم سب کا پروردگار تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے، جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور میں اس بات پر گواہ ہوں۔‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ان سے ان کے خداؤں کے متعلق ان کے خیالات، عقائد و نظریات پوچھنے کے ساتھ ساتھ پروردگار عالم کی بابت ان کے نظریات کے متعلق استفسار کیا، جس کا تذکرہ سورہ صافات میں اس طرح ہے: (إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ ﴿٨٥﴾ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللّٰهِ تُرِيدُونَ ﴿٨٦﴾ فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٨٧﴾) (الصافات: 85 تا 87) یعنی: ’’آپ علیہ السلام نے اپنے باپ اور قوم سے پوچھا کہ تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟ کیا اللہ کو چھوڑ کر خود ساختہ معبودوں کو پسند کرتے ہو؟ ذرا یہ بتلاؤ کہ تم نے رب العالمین کے بارے میں کیا سمجھ رکھا ہے؟‘‘ جواباً قوم نے اور تو کچھ نہ کیا البتہ اپنے میلے میں آپ علیہ السلام کو مدعو کیا تاکہ آپ علیہ السلام ان کے خداؤں کے کرتب اور قوم کو ان سے عقیدت کو بچشم خود دیکھ سکیں، اور ان کی بزرگی مان لیں، مگر آپ علیہ السلام دل میں یہ عزم کر چکے تھے کہ: (تَاللّٰهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ ﴿٥٧﴾) (سورۃ الانبیاء: 57) یعنی: ’’اللہ کی قسم تمہارے جانے کی دیر ہے میں تمہارے خداؤں کے بارے میں کوئی منصوبہ ضرور بناؤں گا۔‘‘ بس آپ علیہ السلام نے انہیں ٹالنے کے لئے سوچا اور
Flag Counter