Maktaba Wahhabi

48 - 253
نے کیا ہے) کہا تھا اور اپنی بیوی سارہ کو بہن کہا تھا، لہٰذا میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں سفارش نہیں کر سکتا، اسی طرح صحیح بخاری، صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ لَمْ يَكْذِبْ إِبْراهِيمُ النبيُّ عليه السَّلامُ، قَطُّ إِلّا ثَلاثَ ۔۔۔‘‘ ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹوں کے علاوہ کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا اور ان میں سے دو اللہ کے لئے اور ایک اپنی ذات کے لئے جس میں اپنی بیوی کو بہن کہا تھا۔ [1] اعتراض: بعض ناعاقبت اندیش لوگ، جنہیں منکرینِ حدیث کا لقب دیا جا سکتا ہے، مذکورہ بالا حدیث کے مفہوم کو نہ سمجھ سکے اور عصمتِ انبیاء کا سہارا لیتے ہوئے اسے جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔ جواب: ان لوگوں نے اپنی کج فہمی کی بناء پر جو اعتراض درج بالا حدیث پر کیا وہی اعتراض قرآن مجید پر ہوتا ہے، کیونکہ حدیث میں تین چیزوں کا ذکر ہے: ’’میں بیمار ہوں، بتوں کو توڑنے والی شرارت بڑے بت نے کی ہے اور سارہ میری بہن ہے۔‘‘ ان تین میں سے پہلی دو چیزوں (إِنِّي سَقِيمٌ اور بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا) کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ خدا جانے کہ اب یہ لوگ اس آیت مبارکہ کے بارے میں کیا کہیں گے؟؟ دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کا تعلق ’’باب المعاریض‘‘ سے ہے۔ یعنی یہ ایسی کلام ہے جسے سننے والا جھوٹ محسوس کرے گا لیکن تحقیق و تفتیش کے بعد وہ اس کے جھوٹ نہ ہونے کو تسلیم کرے گا، کیونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی کلام میں دونوں چیزوں کا احتمال پایا جاتا ہے۔ یہ کلام حقیقتِ حال میں سچ ہے لیکن بظاہر اور ازروئے حال خلاف واقعہ ہے۔ تینوں کی تفصیل یوں ہے: (1) ’’ إِنِّي سَقِيمٌ‘‘ یعنی: ’’میں بیمار ہوں۔‘‘ سننے والا اس جملے کو خلافِ واقعہ سمجھ کر اسے جھوٹ تصور کرے گا۔ لیکن درحقیقت
Flag Counter