Maktaba Wahhabi

49 - 253
اس کے درج ذیل تین معانی ہو سکتے ہیں: (أ) میں بیمار ہو جاؤں گا۔ اس تاویل کہ وجہ یہ ہے کہ اسم فاعل فعل مضارع کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں فعل مستقبل کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔ (ب) مجھے موت کی بیماری ہے۔ (ج) تمہارے ساتھ نکلنے کے مسئلہ پر میں ’’سقیم الحجہ‘‘ ہوں، یعنی میرے پاس دلیل نہیں ہے کہ میں تمہارے ساتھ نکلوں۔ ان تین تاویلات کے بعد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بات خلافِ واقعہ نہ رہے گی جیسا کہ سامع نے سمجھا۔ (2) ’’ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا‘‘ یعنی: ’’بتوں کو توڑنے والی کاروائی بڑے بت نے کی ہے۔‘‘ یہ محض قوم کو ڈانٹ ڈپٹ اور لاجواب کرنے کا ایک انداز ہے۔ اسی لئے قوم نے جواباً سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹ کے معاملے میں موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ امام قرطبی نے کہا: دراصل بتوں کی عاجزی و درماندگی ثابت کرنے کے لئے یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے تمہیدی کلمات تھے۔ اسی لئے تو آپ علیہ السلام نے فوراً یہ مطالبہ کیا کہ: ’’ فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ‘‘ یعنی: اگر یہ بولتے ہیں تو ان سے خود پوچھ لو۔ یہ حقیقت حال ہے، لیکن بہرحال اگر الفاظ کے ظاہر کو دیکھا جائے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بات خلاف واقعہ ہے، اسی کو جھوٹ سے تعبیر سے کیا گیا، جو نام نہاد عقلمندوں کو سمجھ نہ آ سکا۔ (3) سارہ میری بہن ہے۔ یہ تو بالکل واضح ہے کہ چونکہ سارہ آپ علیہ السلام کی بیوی تھیں، انہیں بہن کہنا بظاہر خلاف واقعہ ہے، لیکن اگر گہرائی تک پہنچا جائے تو وہ آپ علیہ السلام کی نہ صرف اسلامی بہن تھیں بلکہ چچا زاد بہن بھی تھیں۔ اس لئے یہ جملہ حقیقت میں جھوٹ نہیں ہے، بس بظاہر خلاف واقعہ ہے۔ (فتح الباری) تنبیہ: اگر کسی کا ذہن مذکورہ بالا حقائق تک رسائی حاصل نہ کر سکے تو کم از کم وہ یہ
Flag Counter