Maktaba Wahhabi

182 - 292
والی ٔمدینہ جعفر نے جب یہ حیران کن ماجرا دیکھا تو اپنی خفت وندامت کو ٹالنے اور حضرت امام صاحب کو ذلیل ورسوا کرنے کی غرض سے یہ حکم دیا کہ آپ کا منہ کالا کر کے الٹے منہ اونٹ پر سوار کرتے ہوئے اور مدینہ منورہ کے گلی کوچوں میں تشہیر کراتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ جو کوئی حکومت اور علماء کی مخالفت کرے اس کی قرار واقعی یہی سزا ہے۔ پس جب عالم مدینہ کو مذکورہ اعلان کے ساتھ گلی کوچوں میں پھرانا شروع کیا تو جب منادی کرنے والا خاموش ہو جاتا تو آپ اونٹ پر کھڑے ہو کر یہ اعلان فرماتے: ((مَنْ عَرَفْنِی فَقَدْ عَرَفَنِی وَمَنْ لَّمْ یَعْرِفُنِیْ فَاَناَ مَالِکُ بْنُ اَنَسِ الْاَشْجَعْیِ وَاَقُوْلُ طَلَاقُ الْمُکْرِہِ لَیْسَ بِشَیْء۔)) ’’جو شخص مجھے جانتا ہے اسے تو میرے حال کا خوب علم ہے اور جو نہیں جانتا اسے میں خود بتائے دیتا ہوں کہ مالک بن انس اشجعی انصاری ہوں اور میری اس تشہیر کا سبب یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ جبر واکراہ سے حاصل کردہ طلاق شرعاً صحیح وجائز نہیں ہے۔‘‘ پس جب دو تین دفعہ امام صاحب نے یہ اعلان کیا تو سامعین میں سے کسی نے جا کر جعفر بن سلیمان سے کہا کہ تمہاری منشاء تو عالم مدینہ کی توہین وتحقیر تھی۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امام صاحب حکومت کی تشہیر کر رہے تھے کہ یہ ایسی ظالم حکومت ہے کہ خلاف شریعت ظلماً جبراً منکوحہ عورتوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔لہٰذا اس حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد جعفر نے کہلا بھیجا کہ امام مالک کو اپنے حال پر چھوڑ دو چنانچہ جب حکومت کے کارندوں نے آپ کو کھلا چھوڑ دیا تو آپ مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور دوگانہ شکر ادا کیا۔ یہ ماجرا دیکھ کر بعض لوگوں نے سوال کیا کہ حضرت آپ کے بدن سے خون جاری ہے کپڑے اور بدن لت پت ہے۔ کیا ایسے حال میں نماز جائز ہے۔ آپ نے فرمایا جبکہ حضرت سعید بن جبیر پر حجاج بن یوسف نے ظلم کے پہاڑ توڑے تھے، تو انہوں نے اسی خون آلود کپڑوں میں اور جاری خون کی حالت میں دوگانہ شکر ادا کیا۔ نبا علیہ ان کی اقتدا میں ہم نے
Flag Counter