Maktaba Wahhabi

136 - 342
طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نماز میں بولتے چلے جارہے ہیں تو انھوں نے اپنے ہاتھوں کو زور زور سے ا پنی رانوں پر مارنا شروع کردیا۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ انھوں نے مجھے خاموش کرانا چاہا ہے تو وہ خاموش ہوگئے۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کرلی تو پھر آگے کیا ہوا، وہ سیدنا معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ سے سنتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: (فَبِأَبِي ھُوَ وَ أُمِّي) ’’میرے ماں باپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں۔‘‘ (مَارَأَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَہُ وَلَا بَعْدَہُ أَحْسَنَ تَعْلِیمًا مِنْہُ) ’’ان سے بڑھ کر خوبصورت طریقے سے سمجھانے والا معلم میں نے ان سے پہلے اور ان کے بعد کبھی نہیں دیکھا۔ ‘‘ ذرا الفاظ پر غور کیجیے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی عظمت کا تصور کیجیے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:(فَوَاللّٰہِ! مَا قَھَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي)’’اللہ کی قسم! آپ نہ تو مجھ سے ناراض ہوئے، نہ مجھے کوئی جسمانی سزا دی اور نہ ہی مجھے برا بھلا کہا۔‘‘ بلکہ ارشاد فرمایا: (إِنَّ ہٰذِہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فِیہَا شَیْیٌٔ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ) ’’(جی بیٹا!) ان نمازوں میں لوگوں کے لیے گفتگو کرنا جائز نہیں ۔‘‘ (إِنَّمَا ہُوَالتَّسْبِیحُ وَالتَّکبِیرُ وَقِرَائَ ۃُ الْقُرْآنِ)’’نمازمیں تو صرف تسبیح وتکبیر اور قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔‘‘، صحیح مسلم، حدیث:537۔ قارئین کرام! ذرا غور کیجیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس محبت اور پیار سے اپنے ساتھی کو نماز کے آداب سکھارہے ہیں۔ اور معاویہ رضی اللہ عنہ بھی کتنے خوش ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ توان سے ناراض ہوئے، نہ برا بھلا کہا اور نہ ہی مجھے مارا۔بلاشبہ ایک قائد، ایک رہنما اپنی رعیت کے ساتھ ہمیشہ نرمی کا سلوک کرتا ہے۔ اور یہی و جہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت کرتے تھے۔
Flag Counter