Maktaba Wahhabi

241 - 342
64۔حسن ضیافت کا بہترین بدلہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بعثت کے 13 سال بعد ہجرت کرکے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، ان کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور صحرائی راستوں کا ماہر عبداللہ بن اریقط ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے شدید محبت ہے۔ آپ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے مگر اہل مکہ نے ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔ آپ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرکے فرمایا:(وَاللّٰہِ إِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللّٰہِ)’’اللہ کی قسم! تو دنیا کی بہترین سرزمین ہے۔‘‘ (وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰہِ إِلَی اللّٰهِ) ’’ اور پوری زمین میں اللہ کو محبوب ترین ہے۔‘‘ (وَلَوْلَا اََنِّي أُخْرِجْتُ مِنْکِ مَاخَرَجْتُ) ’’اگر مجھے زبردستی یہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا۔‘‘، عبداللہ بن اریقط امانت دار رہبر اور صحرائی راستوں کا جاننے والاتھا۔ وہ اس قافلے کو ان راستوں سے لے کر چلا جہاں عام قافلوں کی رسائی نہ تھی۔ اس دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش کا کام ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ ، جامع الترمذي، حدیث:3925، وسنن ابن ماجہ، حدیث:3108۔ قدید کے علاقے میں ام معبد کا خیمہ تھا۔ یہ قافلہ اِدھر سے گزرا تو تھوڑی دیر کے لیے وہاں بھی رُکا۔ ام معبد کا اصل نام عاتکہ بنت خالد تھا۔ یہ قبیلہ بنو خزاعہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بوڑھی سمجھدار اور توانا خاتون تھیں۔ اپنے خیمے کے صحن میں بیٹھتیں اور وہیں کھانے پینے کا انتظام کرتیں۔ ان کے بھائی کا نام خنیس بن خالد خزاعی تھا۔قافلے آتے تو ان کو کھلاتیں پلاتیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلے کا بھی یہاں سے گزر ہوا۔ ام معبد نے بڑی محبت اور شوق سے یہ واقعہ اپنے بیٹے خالد کو سنایا۔
Flag Counter