Maktaba Wahhabi

153 - 342
مبارک ہاتھ ابومحذورہ کے سر پر پھیرا اور ایک بار پھر وہی دعا فرمائی:(اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیہِ وَاہْدِہِ إِلَی الْإِسْلَامِ) ادھرابومحذورہ آپ کے اخلاق، محبت اوردعا سے اتنا متأثر ہوا کہ اسی وقت کہنے لگا:(أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَ نَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ)۔ ابومحذورہ چند ہی منٹوں میں کفر اور شرک کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کے نورانی راستے کا راہی بن گیا۔ کہاں اس کو یہ خوف اور ڈر تھا کہ کہیں اسے سزا نہ دی جائے کیونکہ اس نے اذان کا مذاق اڑا یا تھا۔ قارئین کرام! مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ نے ہر شخص سے وہی کام لیا جس کا وہ اہل تھا، جسے وہ بآسانی انجام دے سکتا تھا۔ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی آواز بڑی خوبصورت تھی۔ مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ حرم مکی میں خوبصورت اذان دینے والے شخص کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ابومحذورہ اس ذمہ داری کو بڑی خوبی سے پورا کرسکتے ہیں تو ان کاانتخاب کر لیا اور ابومحذورہ سے ارشاد فرمایا:(اِذْہَبْ مُؤَذِّنًا فِي أَہْلِ مَکَّۃَ، أَنْتَ مُؤَذِّنُ أَہْلِ مَکَّۃَ)۔ ’’جاؤ تم اہل مکہ مکرمہ کے مؤذن ہو۔ تمہیں مکہ والوں کے لیے مؤذن مقرر کیا جاتا ہے۔‘‘ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ پہنچ کر بیت اللہ شریف میں مؤذن کی ذمہ داری سنبھال لی۔ مکہ مکرمہ کے گورنر سیدنا عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ تھے۔ انہیں ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کے بطور مؤذن تقرر کے احکامات مل چکے تھے۔ابومحذورہ رضی اللہ عنہ اب مؤذنِ حرمِ مکی تھے۔ ان کے لیے یہ فخر اور اعزاز کی بات تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بالوں پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا تھا۔انہوں نے مسرت وشادمانی کے احساس سے سرشار ہو کر یہ ذمہ داری سنبھال لی اور زندگی کے آخری سانس تک مؤذنِ حرمِ مکی رہے۔ کہاں ایک معمولی چرواہا اور کہاں اللہ کے عزت وحرمت والے گھر میں پانچوں نمازوں کے لیے اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے کا منصب جلیل! یہ شرف وفضیلت ان کی وفات کے بعد نسل درنسل چلتی رہی اور ان کی اولادتین سو سال تک حرمِ مکی میں مؤذن رہی۔، ، الاستیعاب، ص:844-842، والإصابۃ:203/7، و صحیح مسلم، حدیث:379، و سیرأ علام النبلاء:119-117/3۔
Flag Counter