Maktaba Wahhabi

182 - 342
قارئین کرام !کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت کو تقسیم کیوں نہیں کیا؟ یہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ اخلاق تھا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ بنو ہوازن تائب ہو کر آجائیں اور انھوں نے جو کچھ کھویا ہے، سب لے جائیں۔ مگر ان کی طرف سے تاخیر ہوتی چلی گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ طائف سے واپس آئے تو پھر مالِ غنیمت تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ مؤلفۃ القلوب کے تحت قریش مکہ مکرمہ کے بڑے بڑے سرداروں کو عطیات ملتے ہیں‘ لوگوں کو اتنا دیا، اتنا دیا کہ لوگوں میں مشہور ہو جاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بے دریغ عطیات دیتے ہیں کہ انھیں فقر کا اندیشہ ہی نہیں۔ قارئین کرام! سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو ان کے بیٹوں سمیت تین سو اونٹ اور اٹھارہ کلو چاندی ملتی ہے۔ اکیلے صفوان بن امیہ کو تین سو اونٹ دیے جا رہے ہیں۔ اسے بکریوں کا ریوڑ الگ سے ملا تھا۔ مال غنیمت تقسیم ہو چکا ہے اور ادھر ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وفد میں چودہ افراد ہیں۔ان کا سربراہ اور خطیب ابو صُرَد زہیر بن صرد ہے۔ یہ وفد عرض کر رہا ہے:اللہ کے رسول! ہم عرب کے اصلی باشندے ہیں۔ قریش سے خاندانی تعلق ہے ۔ ہم پر جو مصیبت آئی ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں، لہٰذا ہم پر احسان فرمائیے، اللہ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔ اس تمہید کے بعد اب خطیب ہوازن ابو صرد کھڑا ہوا ہے۔ عورتوں اور بچوں کے کیمپ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا:یہاں آپ کی پھوپھیاں اور خالائیں ہیں جو آپ کو دودھ پلاتی رہی ہیں۔یہ وہ ہیں جنھوں
Flag Counter