Maktaba Wahhabi

197 - 342
دیے۔ وہ ہمیں جیسے چاہتے قتل کرتے تھے اور جیسے چاہتے قید کرتے تھے۔ اللہ کی قسم! اس کے باوجود میں اپنے لوگوں کو ملامت نہیں کر سکتا۔ دراصل ہمارا مقابلہ کچھ ایسے گورے چٹے لوگوں سے ہوا جو آسمان و زمین کے درمیان چتکبرے گھوڑوں پرسوار تھے۔ اللہ کی قسم! نہ وہ کسی چیز کو چھوڑتے تھے اور نہ کوئی چیز ان کے مقابل ٹھہر سکتی تھی۔ اس پر سیدنا عباس بن عبدالمطلب کے غلام ابو رافع نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ توفرشتے تھے۔ اس موقع پر ممکن تھا کہ ابوسفیان اسلام کے حوالے سے سوچتا کہ وہ کونسی مخلوق تھی جنھوں نے قریش کو قتل ملاحظہ کیجیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کو کہ آپ نے اس سردار قبیلہ کی کس طرح عزت افزائی فرمائی اور انھیں پوشاک پہنائی۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھیوں کی تربیت فرمائی:ارشاد ہوا: (إِذَا أَتَاکُمْ کَرِیمُ قَوْمٍ فَأَکْرِمُوہُ) ’’جب تمھارے پاس کسی قوم کا معزز سردار آئے تو اس کی عزت کیا کرو۔‘‘ ابن سعد کا بیان ہے کہ جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ اکیلے نہیں بلکہ ایک وفد کے ساتھ آئے جس میں ایک سو پچاس افراد شریک تھے۔ ، ، سیر أعلام النبلاء:536-530/2، و سنن ابن ماجہ، حدیث:3712، والطبقات لابن سعد:347/1۔ اور آئیے اس حدیث کو پڑھتے ہیں جس کے راوی سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ حدیث کتنی اہم اور بامعنی ہے۔ فرماتے ہیں: (بَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم عَلٰی إِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیتَائِ الزَّکَاۃِ وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ) ’’میں نے نماز کے قیام، زکاۃ کی ادائیگی اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی۔‘‘، ، صحیح البخاري، حدیث:57، و صحیح مسلم، حدیث:56۔
Flag Counter