Maktaba Wahhabi

200 - 342
ارشاد فرمایا:’’مجھے ان سے ملنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ سیدہ نے پھر عرض کی:اللہ کے رسول! ایسا نہیں ہوناچاہیے کہ آپ کے چچازاد بھائی اور پھوپھی زاد بھائی ہی آپ کے ہاں سب سے زیادہ بدبخت ٹھہریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے چچازاد بھائی نے میرے خلاف اشعار کہے۔ پھوپھی زادبھائی نے مکہ مکرمہ میں کہا تھا:اللہ کی قسم! میں تجھ پر ہرگز ایمان نہیں لاؤں گا اگرچہ تو سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جائے اور میں اپنی آنکھوں سے تمھیں دیکھ رہا ہوں، اور ایک دستاویز لے کر آسمان سے اترے اور چار فرشتے تیرے ساتھ ہوں جو اس کی بات کی تصدیق کریں کہ اللہ نے تجھے رسول بنا کر بھیجا ہے، پھر بھی میں تجھ پر ایمان نہ لاؤں گا۔، ،کفار مکہ کے ایسے کفریہ الفاظ قرآن نے یوں ذکر کیے ہیں:﴿وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰباً نَّقْرَؤُہٗ﴾ ’’اور ہم تیرے (آسمان پر) چڑھنے پر بھی ایمان نہ لائیں گے حتی کہ تو ہم پر ایک کتاب اتار لائے جسے ہم پڑھیں۔‘‘ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا عرض کر رہی ہیں:اللہ کے رسول! جب ان سے بھی بڑے مجرم آپ کے مکارمِ اخلاق سے بہرہ یاب ہوئے تو آپ کے چچازاد اور پھوپھی زاد اس سے کیوں محروم رہیں؟ ادھر ابوسفیان کو جب معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ملنا نہیں چاہتے تو اس نے آپ کو پیغام بھیجا:اگر آپ نے مجھے اپنی خدمت میں حاضری کی اجازت نہ دی تو میں اپنے ننھے سے بیٹے جعفر کو ساتھ لے کر صحرا میں نکل جاؤں گا اور وہاں بھوکا پیاسا جان دے دوں گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ابوسفیان کے الفاظ کی اطلاع ہوئی تو آپ کا خلق عظیم آپ کی دلی رنجش پر غالب آگیا، آپ کے دل میں رقت پیدا ہو گئی اور آپ نے دونوں کو ملاقات کی اجازت دے دی۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی ابوسفیان کے چچازاد تھے۔ اپنوں میں آخر محبت تو ہوتی ہے نا… انھوں نے اسے سکھایا:دیکھو جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جاؤ تو وہی کہنا جو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان سے کہا تھا:﴿تَاللّٰہِ لَقَدْ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَإِنْ کُنَّا لَخٰطِئِیْن﴾ ’’اللہ کی قسم! اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت بخشی اور یقینا ہم ہی خطا کار تھے۔‘‘ (یوسف:91)
Flag Counter