Maktaba Wahhabi

207 - 342
قارئین کرام! اخلاق اسے کہتے ہیں۔ اراشی اجنبی ہے۔ وہ یمن کے دور دراز علاقے سے آیا ہے مگر مدد کے لیے اس شخصیت سے رجوع کرتا ہے جو دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور مصیبت میں پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ وہ شخصیت جن کے بارے میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خلق عظیم کی گواہی دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اراشی سے کہا:’’چلو ابوجہل کے پاس چلتے ہیں۔چلو ابھی میں تمھارا حق لے کر دیتا ہوں۔‘‘ اراشی خوشی خوشی آپ کے ہمراہ چل پڑا۔ ابو الحکم کا گھر صفا مروہ کے قریب ہی تھا۔ بیت اللہ سے زیادہ دور نہ تھا۔ قریش کی ٹولی دیکھ رہی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس اراشی کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابو الحکم کے گھر جارہے ہیں۔ اب مزا آئے گا، ان میں سے ایک گویا ہوا۔ مکہ مکرمہ کے ہر فرد کو خوب معلوم ہے کہ ابو الحکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنابڑا دشمن ہے اور جب یہ اراشی کا حق طلب کریں گے تو پھر اس کا رد عمل؟ وہ سوچ کر خوش ہو رہے ہیں۔ ایک شخص سے کہا:جلدی سے تم ان کے پیچھے پیچھے جاؤ اور جا کر دیکھو کہ ان کی آپس میں کیا گفتگو ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اراشی کو لیے ابو الحکم کے دروازے پر پہنچتے ہیں۔ آپ نے دروازے پر دستک دی ہے۔ اندر سے ابو الحکم کی آواز آئی:کون ہے؟ ’’میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )، ذرا باہر نکلو۔‘‘
Flag Counter