Maktaba Wahhabi

232 - 342
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپس میں بھائی بھائی بنادیا تھا، اس لیے ان کا کہنا تھا کہ یہ میری بھتیجی ہے۔ دیکھا جائے تو تینوں کا مؤقف درست تھا،ہر ایک کی دلیل میں وزن تھا مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھیے کہ آپ نے فیصلہ سیدنا جعفر طیار کے حق میں دیا اور فرمایا:(اَلْخَالَۃُ بِمَنْزِلَۃِ الْأُمِّ) ’’خالہ ماں کی طرح ہوتی ہے۔‘‘ چونکہ جعفر کی بیوی اسماء عمارہ کی خالہ ہے،اس لیے اس کی پرورش اور دیکھ بھال کا حق اسماء رضی اللہ عنہا کو ہے۔ قارئین کرام! یہاں ذرا رک جائیں اور دیکھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اپنے ساتھیوں کی دلجوئی کی۔ ان کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے یا انھیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ آپ نے سیدنا علی ابن طالب سے فرمایا:(أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْکَ) ’’آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نسب، سسرالی رشتہ، سبقت الی الاسلام اور باہمی محبت کے اعتبار سے عظیم مرتبہ واضح ہے۔ سیدنا جعفر بن ابی طالب کی یوں تعریف فرمائی:(أَشْبَھْتَ خَلْقِي وَ خُلُقِي) ’’آپ تو سیرت اور صورت میں میرے مشابہ ہیں۔‘‘ سیدنا زید بن حارثہ سے فرمایا:(أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا) ’’تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو‘‘۔ قارئین کرام! آپ نے غور فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس خوبصورت انداز میں ان تینوں کا مقام اور مرتبہ واضح کیا۔ ظاہر بات ہے کہ سیدہ عمارہ رضی اللہ عنہا کی پرورش کا اہتمام تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک ہی کے سپرد کرنا تھا۔ اس موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی:آپ حمزہ کی بیٹی سے نکاح کر لیجیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(إِنَّھَا ابْنَۃُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَۃِ) ’’وہ تو میرے دودھ شریک بھائی کی بیٹی ہے۔‘‘ سیدہ عمارہ کی شادی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رضاعی بھائی ابوسلمہ اور ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما کے بیٹے سلمہ رضی اللہ عنہ سے کی۔ آپ اس شادی سے نہایت خوش اور مطمئن تھے۔ آپ خوشی سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کرتے:’’دیکھو! میں نے سلمہ کے لیے کیسا ہم پلہ رشتہ ڈھونڈا ہے۔‘‘، ، صحیح البخاري، حدیث:4251، و سنن أبي داود:2280، والبدایۃ والنہایۃ:466/4، 467، والإصابۃ:184/8، 185، ومسند أحمد:115/1۔
Flag Counter