Maktaba Wahhabi

238 - 342
گا۔‘‘ قارئین کرام!جس دور کی ہم بات کر رہے ہیں اس وقت مکہ مکرمہ میں قریش اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمن تھے۔ عثمان بن طلحہ اور اس کا گھرانہ بنو عبدالدار اسلام کے شدید دشمنوں میں سے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ ایک دن مکہ مکرمہ فتح ہو جائے گا، اس لیے عثمان نے اس روز بڑی غلیظ زبان استعمال کی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بردباری سے کام لیا۔ عثمان کا کہنا تھا: (لَقَدْ ہَلَکَتْ قُرَیْشٌ یَوْمَئِذٍ إِذًا وَذَلَّتْ) ’’اس کا مطلب ہے کہ قریش اس دن تباہ وبرباد اور ذلیل ورسوا ہو چکے ہوں گے‘‘۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا تھا:(بَلْ عَزَّتْ وَعَمُرَتْ یَوْمَئِذٍ یَا عُثْمَانُ) ’’ایسا نہیں ہو گااے عثمان! بلکہ اس َوقت تو قریش کی زبردست عزت و تکریم اور آباد کاری ہو گی۔‘‘ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ آٹھ ہجری کا سال جلد ہی آجا تا ہے اور مکہ مکرمہ فتح ہوتا ہے۔ یہی وہ دن ہے جس کی پیش گوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دس سال پہلے کی تھی۔ فتح مکہ مکرمہ سے پہلے عثمان بن طلحہ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ جب آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو سیدھے بیت اللہ شریف میں گئے۔ اس کا طواف کیا اور عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’عثمان! جاؤ چابی لا کر مجھے دو۔‘‘ چابی عثمان رضی اللہ عنہ کی والدہ کے پاس تھی۔ جب عثمان نے چابی مانگی تو والدہ نے لیت و لعل سے کام لیا مگر بیٹے نے اپنی ماں سے بڑے حسن تدبر سے چابی حاصل کرکے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دی۔
Flag Counter